کرم: صدہ میں توہینِ مذہب کا الزام، مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی، 2 افراد ہلاک، کرفیو نافذ

اسلام آباد + پشاور (ش ح ط/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کی تحصیل صدہ بازار میں ذاتی جھگڑے کو توہین مذہب کا رنگ دیا گیا، آٹھ سالہ بچے سمیت دو افراد ہلاک اور سات زخمی ہوگئے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق دو افراد کے درمیان لین دین کا تنازعہ تھا، شیعہ طوری قبیلے کے ایک شخص کا لین دین کا تنازعہ تھا اور الزام توہین کا لگایا گیا، مبینہ ملزم نے پولیس اسٹیشن میں پناہ لے لی، مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا اور صدہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1562868983845437440?t=epeFGy9M2D3XBlkgWux7EQ&s=19

یہ واقعہ جمعرات کو بعد دوپہر اس وقت شروع ہوا جب اہلکاروں کے مطابق رقم کی لین دین پر بحث ہو رہی تھی۔ دو تاجروں میں سے ایک کا تعلق اہل سنت اور دوسرے کا تعلق اہل تشیع سے بتایا گیا ہے۔

ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بحث میں شدت آئی تو اس دوران ایک جانب سے گستاخانہ الفاظ استعمال کیے گئے جس پر وہاں موجود لوگ مشتعل ہو گئے۔ اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے شخص نے اس بازار میں تاجروں کے ایک نمائندے کے پاس پناہ لی جس پر مشتعل لوگوں نے تاجر کی دکان پر پتھراؤ بھی کیا ہے۔

کرم پولیس نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ مشتعل ہجوم بضد تھا کہ ملزم کو اس کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ خود اس کو سزا دے سکیں۔ اس ساری لڑائی میں مشتعل ایک شدت پسند گروہ نے صدہ تھانے پر بھی حملہ کیا توڑ پھوڑ کی پتھراؤ کیا۔‘

پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ تھانے کے شیشے پتھراؤ سے ٹوٹ گئے، جبکہ مشتعل ہجوم میں سے چند ایک کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا۔

پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے بعد مبینہ ملزم کو تھانے سے نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ لین دین کا معاملہ ہے جس کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ پولیس میں موجود افسران علاقے میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما سے ملاقات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے دو گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کی، فائرنگ کی ذد میں آکر 8 سالہ نجیب اور جاوید نامی نوجوان ہلاک اور دیگر 7 افراد زخمی ہوگئے۔

صدہ کے علاقے میں ڈر اور خوف ہے۔ ہر جگہ پولیس اور ایف سی کے اہلکار موجود ہے اور سب دکانیں بند ہیں۔

مقامی رہائشیوں نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔

علاقے میں حالات کشیدہ ہیں۔

کرم میں ٹارگٹ کلنگ اور فسادات کی تاریخ

دو ماہ قبل جون کے مہینے میں ایک نوجوان ذیشان حیدر کو صدر بازار کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اس واقعے سے پہلے بھی واقعات پیش آ چکے ہیں۔

کرم ضلع میں پارا چنار اور دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور ماضی میں یہ کشیدگی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ سکیورٹی فورسز کی پناہ میں لوگ سفر کیا کرتے تھے۔

خیال رہے کہ کرم ایجنسی میں نومبر دو ہزار سات میں ہونے والی شدید جھڑپوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں فریقین نے ایک دوسرے کے پچاس سے زائد دیہات کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ سینکڑوں افراد کو اپنے اپنے علاقوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا تھا۔ بے گھر ہونے والے افراد بدستور دوسرے علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں ایک اندازے کے مطابق تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لڑائی کے نتیجے میں فریقین نے اپنے اپنے علاقوں میں مختلف مقامات پر ٹل پارہ چنار شاہراہ ایک دوسرے کےلیے بند کردی تھی۔ اس بندش کی وجہ سے شیعہ اور سنی قبائل کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ بعد میں کچھ عرصہ تک پارہ چنار سے سکیورٹی فورسز کی حفاظت میں قافلوں کی آمد و رفت جاری رہی لیکن ان پر بھی متعدد بار حملے ہوئے اور ان میں کئی افراد ہلاک ہوئے جبکہ افغانستان کے راستے سے جانے والے قافلوں کو بھی متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ سڑکوں کی بندش میں جب شدت آئی تو کچھ وقت تک لوگ پارا چنار سے پشاور نجی و سرکاری ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں سفر کرتے رہے۔

اس کے بعد سال 2011 میں امن کے قیام کے لیے مقامی عمائدین نے کوشش کیں جو کامیاب ہوئیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں شیعہ اور سنی قبائل کے ایک مشترکہ امن جرگہ کی کوششوں سے علاقے میں تقریباً چار سال سے بند تمام سڑکیں پہلی مرتبہ عام ٹریفک کےلیے کھول دی گئی تھیں۔

اس فیصلے سے پوری ایجنسی میں جشن منایا گیا مخالف قبائل نے ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنا کر مبارک باد دی جبکہ شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے بھی لگائے گئے۔

امن معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ تقریباً پچاس سے ساٹھ گاڑیوں پر مشتمل امن قافلہ قبائلی جرگہ اور مقامی حکام کے ہمراہ پشاور سے سڑک کے ذریعے صدر مقام پارہ چنار پہنچا تھا۔

یہ قافلہ ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جن میں اکثریت ان افراد کی تھی جو پچھلے تین چار سال سے سڑکوں کی بندش کی وجہ سے پشاور اور دیگر علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں