1972ء کے میونخ اولمپکس کھیلوں پر دہشت گردانہ حملے کی یاد

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) فلسطینی دہشت گردوں کے اس حملے میں اولمپکس میں حصہ لینے والے 11 اسرائیلی کھلاڑی مارے گئے تھے۔ اس دوران ایک پولیس افسر بھی مارا گیا تھا۔

26 اگست 1972ء کو جرمنی کے جنوبی شہر میونخ میں شروع ہونے والے کھیلوں کے اولمپک مقابلوں کو انتہائی کامیاب بنانے کی تیاریاں کی گئی تھیں لیکن پھر چھ ستمبر کی رات ایک بڑے دہشت گردانہ حملے نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔

ہانس فولکل اب بھی جب روٹرز کی آواز سنتے ہیں تو بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ یہ آواز اس وقت سے ان کا پیچھا کر رہی ہے، جب اسرائیلی کھلاڑیوں پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا۔

اس وقت فولکل جرمن فوج کے ایک نوجوان سپاہی تھے، جنہیں میونخ کے قریب فرسٹن فیلڈ بروک ایئر بیس پر تعینات کیا گیا تھا۔ چھ ستمبر کی رات اس 21 سالہ نوجوان کی نائٹ شفٹ تھی اور اس کی ڈیوٹی وہاں اترنے والے ہیلی کاپٹروں کی نگرانی کرنے کی تھی۔

اسی صبح  فلسطینی دہشت گرد اسرائیلی اولمپک ٹیم کے کوارٹرز میں گھس گئے تھے، جہاں انہوں نے ویٹ لفٹر جوزف رومانو اور ریسلنگ کوچ موشے وائن برگ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس دوران انہوں نے نو دیگر اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

چھ ستمبر کی شام کو آٹھ دہشت گرد اپنے نو یرغمالیوں کے ساتھ دو ہیلی کاپٹروں پر سوار ہوئے لیکن ان کا اسرائیل اور جرمنی کی جیلوں سے کئی ساتھیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔

کئی گھنٹوں کی بات چیت کے بعد اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ ہانس ڈیٹریش گینشر نے حملہ آوروں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں مصری دارالحکومت قاہرہ تک محفوظ طریقے سے پہنچا دیں گے۔ انہوں نے حملہ آوروں کو یقین دلایا کہ دو ہیلی کاپٹر انہیں ریم ایئرپورٹ لے جائیں گے، جہاں ایک مسافر طیارہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔

اس کے بجائے پائلٹ ان دو ہیلی کاپٹروں کو فرسٹن فیلڈ بروک ایئر بیس لے گئے، جہاں ہانس فولکل کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ پولیس ٹاسک فورس کا منصوبہ یہ تھا کہ اسنائپرز دہشت گردوں کو تیزی سے ماریں گے اور یرغمالیوں کو آزاد کرائیں گے لیکن  یہ منصوبہ بہت غلط ہو گیا۔

اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنانے والوں نے اپنی کلاشنکوفوں سے جوابی فائرنگ شروع کر دی،  جب کہ جرمن افواج کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔ یرغمالیوں کی بازیابی اس سے پہلے کبھی بھی پولیس کی تربیت کا حصہ نہیں تھی اور افسران کا ایک دوسرے سے کوئی ریڈیو رابطہ نہیں تھا جبکہ کچھ اہلکار اپنے ساتھیوں کی ہی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔

فولکل اور ان کے ساتھی سپاہیوں کو یہ اطلاع بھی نہیں تھی کہ حملہ آوروں اور ان کے ساتھ یرغمالیوں کو فرسٹن فیلڈ بروک ایئر بیس پر لایا جا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ”ہم اس میں شامل ہو گئے کیونکہ ہم اس وقت وہاں موجود تھے۔ ہم ابھی رات کی شفٹ کے لیے آئے تھے۔ ہمیں پہلے کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا۔‘‘

جب فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا تو فولکل نے اپنے کمرے کے ایک کونے میں خود کو ہیٹر کے پیچھے چھپا لیا جبکہ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر موجود ایک پولیس اہلکار مارا گیا۔ وہ بتاتے ہیں، ”آنٹون فلیگر باؤر وہاں لیٹا ہوا تھا، اس کے خون اور گوشت کے ٹکڑے پوری دیوار پر چپکے ہوئے تھے، اس کے سر پر گولی لگی تھی۔‘‘

آدھی رات تک ہوائی اڈے میں  گولیوں کی آوازیں گونجتی رہیں اور پھر ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ایک فلسطینی عسکریت پسند نے اُس ہیلی کاپٹر پر دستی بم پھینکا تھا، جہاں یرغمالی ابھی تک بندھے ہوئے تھے۔

 جیسے ہی اگلی صبح ہوئی تو پتا چلا کہ پولیس افسر آنٹون فلیگر باؤر کے ساتھ ساتھ پانچ دہشت گرد بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ کوئی اسرائیلی یرغمالی بھی زندہ نہیں بچا۔ 

میونخ میں ہونے والے اولمپکس گیمز کا مقصد دنیا کو جرمنی کا دوستانہ چہرہ دکھانا تھا۔ یہ نازی حکومت والے برلن میں اولمپک کھیلوں کے 36 سال بعد جبکہ دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے صرف 17 سال بعد ”امن کا جشن‘‘ ہونا تھا۔  ہولوکاسٹ کے دوران 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔

لیکن اب دوبارہ جرمن سرزمین پر یہودیوں کو قتل کیا گیا اور جرمن ریاست ان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی۔

اسرائیلی کھلاڑی شاؤل لادانی اور شلومِیت نِیر طُور اس حملے میں محفوظ رہے اور اولمپک ولیج میں ایک مختصر سی تعزیتی تقریب میں شرکت کے بعد سات ستمبر کو واپس اسرائیل لوٹ گئے۔ یہ دونوں کھلاڑی اُسی طیارے میں واپس لوٹے تھے، جس میں ان کے مارے جانے والے ساتھیوں کی تابوتوں میں بند لاشیں بھی تھیں۔

اس واقعے کے باوجود میونخ میں کھیلوں کے اولمپک مقابلے جاری رہے۔ تب انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر برُونداج نے اعلان کیا تھا کہ مقابلوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا مائر تھیں۔ ان کی حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ میونخ اولمپکس کو منسوخ کر دیا جائے۔ لیکن بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ اس حملے کی سزا ان کھلاڑیوں کو نہیں ملنی چاہیے، جنہوں نے ان اولمپکس کے لیے سالہا سال تک تیاری کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں