کرم: صدہ میں جلاؤ گھیراؤ، کرفیو نافذ، فوج تعینات

صدہ (مانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کی تحصیل صدہ بازار میں پولیس تھانے میں فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران 2 نوجوان ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے۔

ڈان نیوز کے مطابق حکام اور عینی شاہدین نے بتایا کہ تاجروں کا تنازع رقم کی لین دین کا تھا اور اس بحث کے دوران اچانک گرما گرمی ہوئی اور بات گستاخانہ الفاظ تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔

ایک شخص نے انجمن تاجران کے صدر کی دکان میں پناہ لی، ہجوم نے دکان کو گھیرے میں لے لیا اور اس شخص کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا لیکن مالک نے انکار کر دیا۔

گاہک نے مظاہرین کو پولیس پر حملہ کرنے پر اُکسایا جس کے بعد پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔

مظاہرین نے پولیس تھانے کا گھیراؤ بھی کیا اور وہاں موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فوجی دستوں کو طلب کر لیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی فائرنگ سے 2 افراد ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے، ہلاک ہونے والوں کی شناخت جاوید اور نجیب کے نام سے ہوئی ہے۔

سرکاری ڈاکٹر رحیم گل نے صحافیوں کو بتایا کہ زخمیوں کو صدہ قصبہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ معمولی زخمی ہونے والے 8 افراد کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے جب کہ تشویشناک حالت میں زخمی افراد کو پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔

صدہ میں شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ملحقہ علاقوں میں پولیس اور فوجی دستوں کو تعینات کردیا گیا ہے۔

جھڑپوں کے بعد حکام نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا جہاں قانون نافذ کرنے والے اہلکار گشت کر رہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر واصل خان نے کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے صورتحال پر قابو میں پالیا ہے اور علاقے میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرگہ مسئلے کے جلد حل کے لیے مصروف عمل ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔

کرم: صدہ میں توہینِ مذہب کا الزام، مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی، 2 افراد ہلاک، کرفیو نافذ

کرم میں ٹارگٹ کلنگ اور فسادات کی تاریخ

دو ماہ قبل جون کے مہینے میں ایک شیعہ نوجوان ذیشان حیدر کو صدر بازار کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اس واقعے سے پہلے بھی واقعات پیش آ چکے ہیں۔

کرم ضلع میں پارا چنار اور دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور ماضی میں یہ کشیدگی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ سکیورٹی فورسز کی پناہ میں لوگ سفر کیا کرتے تھے۔

خیال رہے کہ کرم ایجنسی میں نومبر دو ہزار سات میں ہونے والی شدید جھڑپوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں فریقین نے ایک دوسرے کے پچاس سے زائد دیہات کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ سینکڑوں افراد کو اپنے اپنے علاقوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا تھا۔ بے گھر ہونے والے افراد بدستور دوسرے علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں ایک اندازے کے مطابق تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لڑائی کے نتیجے میں فریقین نے اپنے اپنے علاقوں میں مختلف مقامات پر ٹل پارہ چنار شاہراہ ایک دوسرے کےلیے بند کردی تھی۔ اس بندش کی وجہ سے شیعہ اور سنی قبائل کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ بعد میں کچھ عرصہ تک پارا چنار سے سکیورٹی فورسز کی حفاظت میں قافلوں کی آمد و رفت جاری رہی لیکن ان پر بھی متعدد بار حملے ہوئے اور ان میں کئی افراد ہلاک ہوئے جبکہ افغانستان کے راستے سے جانے والے قافلوں کو بھی متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ سڑکوں کی بندش میں جب شدت آئی تو کچھ وقت تک لوگ پارا چنار سے پشاور نجی و سرکاری ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں سفر کرتے رہے۔

اس کے بعد سال 2011 میں امن کے قیام کے لیے مقامی عمائدین نے کوشش کیں جو کامیاب ہوئیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں شیعہ اور سنی قبائل کے ایک مشترکہ امن جرگہ کی کوششوں سے علاقے میں تقریباً چار سال سے بند تمام سڑکیں پہلی مرتبہ عام ٹریفک کےلیے کھول دی گئی تھیں۔

اس فیصلے سے پوری کرم میں جشن منایا گیا مخالف قبائل نے ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنا کر مبارک باد دی جبکہ شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے بھی لگائے گئے۔

امن معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ تقریباً پچاس سے ساٹھ گاڑیوں پر مشتمل امن قافلہ قبائلی جرگہ اور مقامی حکام کے ہمراہ پشاور سے سڑک کے ذریعے صدر مقام پارہ چنار پہنچا تھا۔

یہ قافلہ ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جن میں اکثریت ان افراد کی تھی جو پچھلے تین چار سال سے سڑکوں کی بندش کی وجہ سے پشاور اور دیگر علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں