تحریک طالبان کے درہ آدم خیل، اورکزئی اور ہنگو میں سرگرم ہونے کی اطلاعات، مقامی افراد کا احتجاج

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات اور دیر میں عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے بعد صوبے کے بعض دیگر علاقوں میں بھی شدت پسندوں کے سرگرم ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جس کے باعث مقامی افراد میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔

صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے ہیں جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان علاقوں میں اپنے موجود اور سرگرم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

صوبائی حکومت نے ٹی ٹی پی کے سرگرم ہونے سے متعلق ان دعوؤں پر کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے البتہ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حکومت صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور جہاں نقضِ امن کا خدشہ ہوگا وہاں کارروائی کی جائے گی۔

مقامی افراد میں ان عسکریت پسندوں کے سرگرم ہونے کی اطلاعات کے بعد خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں مقامی افراد نے عسکریت پسندوں کی مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف ریلیاں نکالیں اور پرامن احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

پمفلٹس کی تقسیم

دو روز قبل ضلع کوہاٹ کے علاقے درۂ آدم خیل میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی جانب سے پمفلٹ کے ذریعے اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق اسی روز شمالی ضلع بونیر کے پہاڑی علاقے امازئی میں 30 سے زائد مسلح افراد سڑک پر گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ اس سے چند روز قبل ٹی ٹی پی سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرنے والے عسکریت پسندوں نے ہنگو اور اورکزئی کے اضلاع میں سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عسکریت پسندوں کی طرف سے تقسیم کیے گئے پمفلٹس میں کہا گیا ہے کہ اگر مقامی افراد کو حکومت، سرکاری عہدے داروں یا کسی سے بھی کوئی شکایت ہے تو وہ انہیں اس پرچے میں دیے گئے واٹس ایپ نمبروں پر اطلاع کریں۔ ان پمفلٹس میں بظاہر افغانستان کے واٹس ایپ نمبر دیے گئے ہیں۔

اس علاقے سے ممبر صوبائی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری وپارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کی اپیل پر بدھ کے روز ایک احتجاجی ریلی اور امن مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔

مقامی افراد کا احتجاج

سردار بابک نے الزام عائد کیا کہ جب پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور ایسے وقت میں شدت پسند سیلاب کی آڑ لے کر بعض علاقوں میں واپس آرہے ہیں او رحکومت کی طرف سے انہیں روکنے کے لیے کاررائی نہیں کی جارہی ہے۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جاری کردہ ایک تحریری بیان میں درہ آدم خیل کے مقامی افراد کو خبردار کیا ہے کہ وہ رات 10 بجے کے بعد بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں اور مشکوک افراد کی نشاندہی کے لیےطالبان سے تعاون کریں۔

سیاسی جماعتوں کے ایک مقامی اتحاد کے صدر شاہ فیصل آفریدی نے بھی درۂ آدم خیل میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے کے خلاف احتجاج کا اعلان کررکھا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ علاقے میں بدحالی، ٹارگٹ کلنگ اور شدت پسندی میں اضافے کے خلاف امن مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی بھی گروہ کو علاقے کا امن دوبارہ خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس سے قبل گزشتہ دنوں سوات میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات کے بعد مقامی لوگوں نے مٹہ، خوازہ خیلہ اور کبل میں احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں۔ جب کہ سوات کی مختلف سیاسی جماعتوں ، تنظیموں اور کاروباری شخصیات نے ایک جرگے میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ کسی قیمت پر ٹی ٹی پی کو سرگرمیوں یا علاقے خالی کرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

حکومت کا مؤقف

خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کی مبینہ سرگرمیوں پر ابھی تک کوئی واضح مؤقف نہیں دیا ہے۔البتہ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائےا طلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ افغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ برقرار ہے۔

ان کے بقول امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس سمیت تمام سیکیورٹی ادارے مصروفِ عمل ہیں۔ کہیں بھی دہشت گردی یا تشدد کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے تو سیکیورٹی ادارے فوری طور پر کارروائی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مصالحت کے لیے حکومتی ادارے رواں سال مئی سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں طالبان نے مذاکرات کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک برقرار ہے۔

ٹی ٹی پی کے دعوے کے مطابق مستقل مصالحت اور امن معاہدے کے لیے حکومت نے انہیں سات سابقہ قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن کے مخصوص علاقوں میں اپنی مرضی سے رہنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔

ٹی ٹی پی کے بقول ، اسی بنیاد پر سوات اور دیگر علاقوں میں موجود تنظیم سے منسلک افراد نے اپنی سر گرمیاں شروع کی ہیں۔تاہم حکومت ٹی ٹی پی کے دعوؤ ں کی تصدیق یا تردید سے گریز کررہی ہے جس کے باعٖث عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں