القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں بھارتی ریاست آسام میں ایک اور مدرسہ منہدم

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارتی ریاست آسام میں ‘دہشت گردی’ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک مدرسے اور اس سے متصل مکان کو مقامی رہائشیوں نے منہدم کر دیا ہے۔ اس اقدام پر مسلم تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک ماہ کے اندر ریاست میں چار مدارس منہدم کیے جا چکے ہیں۔

ریاست آسام کے گوال پاڑہ ضلعے میں ماٹیا پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے ایک گاؤں ’پاکھیورا چار‘ کے رہائشیوں نے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک مدرسہ اور اس سے متصل ایک مکان کو از خو دمنہدم کر دیا۔

رپورٹس کے مطابق چار اگست کو موری گاؤں ضلع، 29 اگست کو برپیٹا ضلع، 31 اگست کو بوگائی گاوں ضلع اور چھ ستمبر کو گوال پاڑہ ضلع میں ایک ایک مدرسے کو منہدم کیا گیا۔ اول الذکر تین مدارس انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں منہدم کیے گئے تھے۔

گوال پاڑہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وی وی راکیش ریڈی نے اگرتلہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقامی باشندے اس مدرسے میں مبینہ ملک دشمن اور جہادی سرگرمیوں سے ناراض تھے۔ پولیس نے اس مدرسے کے ایک استاد 49 سالہ جلال الدین کو 20 اگست کو جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ مغربی بنگال کے دو اساتذہ امین الاسلام عرف عثمان اور جہانگیر عالم مدرسے میں 2020 سے 2022 کے درمیان پڑھا رہے تھے۔ ان کا تعلق مبینہ طور پر القاعدہ کی برصغیر شاخ اور انصار اللہ بنگلہ ٹیم سے تھا۔ جب مقامی رہائشیوں کو ان کے جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا علم ہوا تو دونوں فرار ہو گئے۔

ان کے مطابق لوگوں نے مدرسے کو اپنے طور پر گرا دیا اس میں ضلع انتظامیہ یا پولیس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا کہ مدرسہ منہدم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

یاد رہے کہ ریاستی پولیس نے رواں سال میں مارچ سے لے کر اب تک 40 افراد کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق انتظامیہ مسلم آبادی والے علاقوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے الزام عائد کیا ہے کہ جن مدرسوں کو منہدم کیا گیا ہے وہ ملک دشمن اور جہادی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور یہ کہ ریاست میں جہادی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے مدارس کے انہدام کے خلاف قومی کمیشن برائے اقلیتی اُمور سے شکایت کی ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمان عبد الخالق اور ارکان اسمبلی پردیپ سرکار، عبد الرشید مونڈل، آصف نظر اور عبد الباطن کھنڈا کر نے کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لالپورہ کے نام ایک خط میں الزام لگایا ہے کہ مدارس کا انہدام قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔

عبد الرشید نے الزام لگایا کہ بی جے پی 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیشِ نظر عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم بی جے پی کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

آسام میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے صدر اور آسام سے رکن پارلیمان مولانا بدر الدین اجمل نے دو ستمبر کو ایک وفد کے ساتھ وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور انہیں مدرسوں کے انہدام کے خلاف ایک میمورنڈم پیش کیا۔

آسام میں مدارس کے انہدام پر مسلمانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور انہیں یہ اندیشہ لاحق ہو رہا ہے کہ جس طرح آسام میں دہشت گردی کے الزام میں مدارس منہدم کیے جا رہے ہیں اسی طرح دیگر ریاستوں میں بھی گرائے جا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی ایک جماعت جمعیة علماءہند نے اس صورتِ حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا اور اس نے منگل کو دہلی میں علما اور مسلم دانش وروں کا ایک بڑا اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں اترپردیش میں غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے اور آسام میں مدارس کے انہدام پر اظہار تشویش کیا گیا اور ان اقدامات کو مدارس اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔

اجلاس میں اترپردیش کے بڑے مدارس سے وابستہ 200 سے زائد ذمہ داروں نے شرکت کی۔ انہوں نے یوپی حکومت کی جانب سے مدارس کے سروے پر اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کی یوگی حکومت کی نیت پر سوال اٹھایا۔ جمعیة علما کی جانب سے مدارس کے لیے ایک ہیلپ لائن نمبر جاری کیا گیا اور ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جو اس معاملے کو دیکھے گی۔

جمعیة علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے جہاں حکومت کے مجوزہ فیصلے پر اظہارِ تشویش کیا وہیں مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل بھی کی کہ اگر ان کے اداروں میں قوانین کے نقطۂ نظر میں کوئی خامی ہے تو اسے درست کیا جائے اور قانون کی پابندی کی جائے۔

بھارتی مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بورڈ کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اترپردیش اور آسام میں مدارس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کے بقول اقلیتی تعلیمی اداروں کو قانونی تحفظ حاصل ہے، اس کے باوجود آسام میں مدارس کو منہدم کیا جا رہا ہے اور جن کو منہدم نہیں کیا جا رہا ان کو اسکولوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

آسام میں مدارس کے انہدام کو بعض سرکردہ مسلم دانش وروں نے باعثِ تشویش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص جہادی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے نہ کہ مدارس کا انہدام کیا جائے۔

ان کا خیال ہے کہ آسام میں مقامی باشندوں کے ہاتھوں مدارس کے انہدام سے مسلم مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ مزید مدارس کو ہدف بنا سکتے ہیں۔

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز‘ کے چیئر مین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے دہشت گردی کے الزام میں مدارس کے انہدام کو دستور اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقے اور حکمراں جماعت کے نزدیک دستور و قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے مطابق اقلیتوں اور دلتوں کے تعلق سے پولیس کے رویے کے پیشِ نظر عوام کے ایک طبقے میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ وہ کچھ بھی کریں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔ اُنہوں نے اس صورت حال کو ملک کے لیے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ قرار دیا۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مسلمان، دلت اور دیگر اقلیتیں تعلیم میں بھی پیچھے ہیں اور تعلیمی اداروں کے قیام میں بھی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان طبقات میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرے۔ لیکن بجائے اس کے، مسلمانوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کے نام پر گرایا جا رہا ہے جو کہ دستور و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایک ماہر تعلیم اور ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘ کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری عبد الرشید انصاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دستور کی دفعہ 29 اور 30 میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی اداروں کے قیام او رانتظام کا حق ہے۔ لہٰذا کسی بہانے سے کسی تعلیمی ادارے کا انہدام دستور کی ان دفعات کی خلاف ورزی ہے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے دستور کی دفعہ 29 اور 30 کو بنیادی حق کا درجہ دیا ہے اور اس حق کے تحت ہر شخص کو تعلیم کی گارنٹی دی گئی ہے۔ حکومت کسی بھی بچے کو تعلیم حاصل کرنے کے اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی تعلیمی ادارے کو منہدم کر دے، یہ سراسر غیر قانونی ہے۔

انسانی حقوق کے بعض کارکنوں اور متعدد سیاست دانوں نے انہدام کو تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ کانگریس کے ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ قومی اقلیتی کمیشن سے ان واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں