خالد شیخ محمد: نائن الیون کے منصوبہ ساز کا مقدمہ دو عشروں کے بعد بھی التوا کا شکار

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے منصوبہ ساز سمجھے جانے والے شخص کی پاکستان سے گرفتاری کو دو عشروں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس کا معاملہ قانونی پیچیدگیوں میں الجھا ہوا ہے۔

اب جب کہ اتوار کے روز اس دہشت گرد حملے کی اکیسویں برسی آرہی ہے، خالد شیخ محمد اور چار دوسرے افراد جن پر نائن الیون سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے گوانتانا موبے کے ایک کیمپ میں بند ہیں۔

فوجی ٹریبونیل میں ان کا مقدمہ مسلسل ملتوی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں قانونی کارروائی کو تازہ ترین دھچکہ گزشتہ ماہ اس وقت پہنچا جب مقدمے سے قبل کی سماعتیں، جن کے لیے خزاں کے اوائل کا وقت مقرر کیا گیا تھا، منسوخ کر دی گئیں۔ یہ تاخیر حملے کےتین ہزار کے قریب ہلاک ہونے والے لوگوں کے عزیزو اقارب کے لیے مایوسی کا سبب ہے۔

خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق یکم مارچ 2003 کو طلوع آفتاب سے قبل امریکہ نے پاکستان کے شہر راولپنڈی میں چھپے خالد شیخ محمد کو گرفتار کرکے گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے منصوبہ سازوں کے خلاف ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔

اگر مقدمے میں اسے سزا دی گئی تو خالد شیخ کو موت کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔

تاہم اس دوران جبکہ خالد شخ کا معاملہ ابھی مقدمے کے مرحلے تک بھی نہیں پہنچا ، امریکہ نے سن دو ہزار گیارہ میں ایک حملے میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا اور پھر اس کے نائب اور اسکے بعد القاعدہ کا لیڈر بننے والے ایمن الظواہری کو بھی اس سال ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔

خالد شیخ نے ٹریبونل میں سماعت کے دوران ایک تحریری بیان میں اسامہ بن لادن سے اپنی وفاداری کے حلف اور گیارہ ستمبر کے حملے کو منظم کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کے آپریشنل ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

بیان کے مطابق خالد شیخ نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بم حملوں، 1994 میں صدر بل کلنٹن کے قتل کی کوشش اور 1995 میں پوپ جان پال دوئم کے قتل کی منصوبہ بندی کے جرائم کو بھی اپنے ہی کھاتے میں ڈالا ہے۔

فوجی ٹریبونیل میں ان کا مقدمہ مسلسل ملتوی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں قانونی کارروائی کو تازہ ترین دھچکہ گزشتہ ماہ اس وقت پہنچا جب مقدمے سے قبل کی سماعتیں، جن کے لیے خزاں کے اوائل کا وقت مقرر کیا گیا تھا، منسوخ کر دی گئیں۔ یہ تاخیر حملے کےتین ہزار کے قریب ہلاک ہونے والے لوگوں کے عزیزو اقارب کے لیے مایوسی کا سبب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں