خارکیف خطے کے متعدد علاقوں سے روسی فوج کی پسپائی

کیف (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) یوکرین کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں روسی افواج کو خارکیف کے اہم اسٹریٹجک علاقوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی علاقے کے تقریباً 30 قصبوں اور دیہاتوں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔

روسی وزارت دفاع نے ہفتے کے روز اعتراف کیا کہ روسی فورسز اسٹریٹجک لحاظ سے اہم شہر ایزیم کو چھوڑ رہی ہیں۔ اسی طرح خارکیف کے شمالی علاقوں سے بھی روسی فورسز کے انخلاء کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق بڑے شہر خارکیف سے تیس کلومیٹر شمال میں واقع گاؤں کوزاچا لوپان کے رہائشیوں نے یوکرین کا پرچم لہرا دیا ہے۔ یہ گاؤں روسی سرحد سے فقط چار کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور رواں برس فروری سے روسی فوج نے اس پر قبضہ کر رکھا تھا۔

روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے فوجیوں کو نکالنے کا مقصد ہمسایہ خطے ڈونیٹسک میں فوجی طاقت کو جمع کرنا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ خارکیف کے علاقے میں یوکرینی فورسز کی پیش قدمی کی وجہ سے روس فوجی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے یہ علاقہ خالی کیا گیا ہے۔  

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے مطابق ان کی افواج نے رواں ماہ کے آغاز سے تقریباً دو ہزار مربع کلومیٹر تک کا علاقہ واپس لے لیا ہے۔ روسی فوجیوں نے یوکرین کے تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

مغرب اور امریکہ کی مدد سے یوکرین کی فوج ملک کے مشرقی علاقوں کے اندر تک کارروائیاں کر رہی ہے۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح خارکیف کے شمال مشرقی علاقے کے تقریباً 30 قصبوں اور دیہاتوں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔

 یوکرینی وزارت خارجہ کے مطابق اس پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوکرین روسی افواج کو شکست دے سکتا ہے لیکن اسے مزید مغربی ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ایک روسی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یوکرینی فورسز کی پیش قدمی کی وجہ سے ہزاروں یوکرینی شہری سرحد پار کرتے ہوئے روس میں داخل ہو چکے ہیں۔

 روسی بیلگوروڈ ریجن کے گورنر ویاچسلاو گلادکوف نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ”گزشتہ ایک دن میں ہزاروں لوگ سرحد پار کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اپنی گاڑیوں میں رشتہ داروں کے پاس گئے ہیں۔ آج اس علاقے میں 27 عارضی رہائش گاہوں میں 1342 افراد کو رکھا گیا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں