سوات دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 8 ہو گئی، تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کرلی

اسلام آباد (ڈیلی اردو رپورٹ) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل کبل کے علاقے برہ بانڈئی میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 8 ہوگئی ہیں۔

سوات پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے مزید 3 افراد کی لاشیں آج صبح ملی ہیں، یاد رہے کہ گزشتہ روز سوات کے علاقے برہ بانڈئی میں ہونے والے ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سربراہ اور 2 اہلکاروں سمیت 5 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں رکن امن کمیٹی ادریس خان بھی شامل تھے جبکہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سیدو شریف اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا پولیس کے ابتدائی اعلامیے کے مطابق دھماکے میں رکن امن کمیٹی ادریس خان سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں ادریس خان کی سکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکار کانسٹیبل توحید اللہ اور کانسٹیبل رامبیل شامل ہیں۔

پولیس نے ابتدائی اعلامیے میں تین اور لوگوں کی شناخت ظاہر نہیں کی تاہم ادریس خان کے ایک عزیز کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں تین مزدور شامل ہیں۔

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے سوات میں امن کمیٹی کے چیئرمین پر ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری داری قبول کر لی۔

ادریس خان کون تھے؟

ادریس خان کی اپنی رہائش برہ بانڈئی میں تھی جبکہ اس سے ملحق علاقے کوزہ بانڈی اور امام ڈھیری میں بھی ادریس خان ہی کا خاندان رہتا ہے۔

ادریس خان اور ان کے خاندان کا شمار علاقے کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ علاقے کے چھوٹوں کے لیے ادریس خان دا جان تھے، دوستوں کے لیے ادریس خان اور علاقے کے لوگ انھیں اودل خیل خانان کے نام سے پکارتے تھے۔

ادریس خان کے ایک اور قریبی رشتہ دار کے مطابق ادریس خان کے سوگواروں میں تین بیٹے، ایک بیٹی اور بیوہ شامل ہیں۔ ان کا ایک بیٹا پاکستان فوج میں میجر ہے جبکہ باقی بچے زیر تعلیم ہیں۔

ادریس خان کے قریبی رشتہ دار کے مطابق ’سوات میں طالبان کا آغاز امام ڈھیری کے علاقے سے ہوا تھا۔ اس علاقے کو ان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ امام ڈھیری، کوزہ بانڈی اور برہ بانڈئی قریب قریب واقع ہیں۔ جہاں پر طالبان کو ادریس خان اور ان کے خاندان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ادریس خان طالبان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے تھے۔

’ہمارے خاندان پر طالبان نے سنہ 2010 سے پہلے کوئی پانچ حملے کیے تھے۔ ادریس خان پر اس حملے سے قبل تین حملے ہوئے تھے جن میں وہ محفوظ رہے۔‘

خیال رہے کہ ادریس خان پاکستان والی بال ٹیم کے کپتان ایمل خان کے چچا ہیں۔

سوات امن لشکر کا سربراہ مقرر کیا گیا

ادریس خان کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ ’جب علاقے میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو اس وقت دا جان فوج کے ساتھ مل کر آپریشن کرتے تھے۔ یہ علاقہ طالبان کا بڑا گڑھ تھا۔ یہاں پر آپریشن کامیاب بنانے میں جہاں فوج کی بہت زیادہ قربانیاں ہیں وہاں پر ادریس خان کی کوششوں کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2010 میں حکومت کی نگرانی میں جب امن لشکر بنا تو ادریس خان کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

’وہ گاؤں گاؤں جا کر امن لشکر کو تربیت دیتے تھے اور علاقے میں آپریشن کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جس کے بعد طالبان ہمارے سارے خاندان کے دشمن بن گئے اور دھمکیاں دیا کرتے تھے۔‘

’اس کے بعد بھی جب دا جان کھڑے رہے تو ان کے بھتیجے عارف خان کو گاؤں سے باہر دھوکے سے بلا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود دا جان کبھی نہیں ڈرے۔ دا جان کی اس بہادری پر فوجی افسران نے کئی مرتبہ انھیں سراہا اور اپنا بازو قرار دیا تھا۔‘

سوات سے غیر ملکی موبائل کمپنی کے ملازمین اغوا

اسی طرح ضلع سوات میں حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی موبائل سروس کمپنی کے 7 ملازمین کو اغوا کرلیا۔

ڈی پی او سوات زاہد نواز مروت کا کہنا ہے کہ کمپنی کے ساتوں ملازمین کو تحصیل مٹہ سے اغوا کیا گیا ہے۔

ملازمین غیر ملکی کمپنی کے موبائل ٹاور کے تعمیراتی منصوبے پر کام کررہے تھے۔

زاہد نواز نے بتایا کہ ملزمان نے کمنی ملازمین کو رہا کرنے کے بدلے دس کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔

کرم میں سرحد پار سے شدت پسندوں کا حملہ

گزشتہ روز ہی خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں سرحد پار سے شدت پسندوں کے حملے میں پاکستانی فوج کے 3 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ جس کے نتیجے میں نائیک مویز خان آفریدی، سپاہی نیک رحمان، سپاہی عرفان خان شدید زخمی ہوئے، زخمیوں کو پارا چنار ملیشیاء ہیڈکوارٹر منتقل کر دیا گیا جہاں تینوں اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ دم توڑ گئے۔

اہلکاروں کی نماز جنازہ کرم ملیشیاء کے ہیڈکوارٹر میں ادا کی گئی، بعد ازاں انکے جسد خاکی اپنے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ کر دیئے گئے جہاں اہلکاروں کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔

ادھر کالعدم تینظم تحریک طالبان پاکستان نے ضلع کرم ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

کوہاٹ میں پولیس اسٹیشن پر دستی بم حملہ

کوہاٹ میں پولیس اسٹیشن پر دستی بم کے حملے میں ایس ایچ او اور 4 اہلکاروں سمیت 7 افراد زخمی ہو گئے۔

پولیس کے مطابق دستی بم کا حملہ تھانا بلی ٹنگ پر کیا گیا جس میں ایس ایچ او عبدالروف سمیت 4 اہلکاروں سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تھانے پر حملے میں ملوث دہشتگردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔

جمرود میں ایف سی چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کا حملہ

ادھر قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے گودر میں بھی رات گئے ایف سی چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کے حملے میں ایک ایف سی اہلکار ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا۔

پولیس کا بتانا ہے کہ ایف سی چیک پوسٹ پر فائرنگ کا واقعہ رات کو پیش آیا، ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں