روسی فوجی تربیتی گراؤنڈ پر حملہ،11 رضاکار ہلاک، 15 زخمی

ماسکو (ڈیلی اردو/ڈی پی او/رائٹرز) روسی وزارت دفاع کے مطابق ہفتے کے روز روسی فوجی تربیتی گراؤنڈ پر ایک حملے میں کم از کم 11 رضاکار ہلاک اور 15 دیگر زخمی ہوئے۔ حملہ یوکرین پر روسی قبضے کے بعد سے اب تک روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو لگنے والا تازہ ترین دھچکہ تھا۔

نیوز ایجنسی آر آئی اے کے مطابق یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ میں دو رضاکار فوجیوں نے فوجی تربیتی میدان میں فائرنگ کی۔ روس کی وزارت دفاع نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ دونوں فوجیوں کا تعلق آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ سے تھا۔ یہ ایک علاقائی بین الحکومتی تنظیم ہے۔ 1991ء میں قائم کی گئی اس تنظیم میں ایسے نو ممالک شامل ہیں جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھے۔ ان مین آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، قزاقستان، کرغزستان، مالدووا، روس، تاجکستان اور ازبکستان۔ روس کا کہنا ہے کہ21 ستمبر کو ریزرو فورس کو جزوی طور پر متحرک کرنے کے اعلان کے بعد سے اس نے دو لاکھ  سے زیادہ افراد کو بھرتی کیا ہے۔

‘خوفناک واقعہ‘

چند آزاد ذرائع ابلاغ نے ہفتے کو ہوئے اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ بتائی ہے۔ روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ، جو  روسی ملٹری یونٹس کے اڈوں میں سے ایک ہے، کے گورنر یاخسلوف گلاڈکوف نے اتوار کی صبح سویرے ایک بیان میں کہا، ”ہماری سرزمین پر ایک خوفناک واقعہ پیش آیا ہے۔‘‘ روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ  نے ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ پر ایک ویڈیو پوسٹ میں مزید کہا، ”بہت سے فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں تاہم بیلگوروڈ کا کوئی رہائشی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا ہے۔‘‘

یہ حملہ کریمیا کے علاقے میں قائم ایک پُل کی تباہی کے ایک ہفتے بعد کیا گیا۔ یاد رہے کہ یوکرینی جزیرہ نما کریمیا کو 2014 ء میں روس میں ضم کر لیا گیا تھا۔ اس سے قبل روس یوکرین جنگ کے دوران بحیرہ اسود میں روس کا فلیگ شپ بھی اڑا دیا گیا تھا جو بعد ازاں ڈوب گیا تھا۔ روسی وزارت دفاع کے حوالے سے خبر رساں ابجنسی RIA کے حوالے سے رپورٹ میں مزید کہا گیا، ”آتشیں اسلحہ کے تربیتی سیشن کے دوران، جس میں شریک ہونے کی خواہش  رضاکاروں نے خود ظاہر کی تھی، دہشت گردوں نے یونٹ کے اہلکاروں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔‘‘

حملہ آور کون تھے؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ایک مشیر اولیکسی ایرسٹووچ نے یوٹیوب کے ایک انٹرویو میں کہا کہ حملہ آوروں کا تعلق وسطی ایشیائی ملک تاجکستان سے تھا اور انہوں نے مذہب پر جھگڑا ہونے کے بعد دوسروں پر فائرنگ شروع کر دی ۔

تاجکستان ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جکہ روس کی قریب نصف آبادی مسیحیت کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھتی  ہے۔

اُدھر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ہفتے کو کہا تھا کہ روس کے مسلسل حملے اور ڈونباس کے بڑے علاقے میں صورتحال بہت مشکل ہونے کے باوجود یوکرینی فوجیوں نے اب بھی اسٹریٹیجک اعتبار سے نہایت اہم مشرقی قصبے باخموٹ کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہ وہاں موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں