بھارت نے پلٹزر ایوارڈ یافتہ خاتون صحافی کو امریکا جانے سے روک دیا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو بھارتی امیگریشن حکام نے کوئی وجہ بتائے بغیر دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا، وہ پلٹزر انعام لینے نیویارک جا رہی تھیں۔ ایک برس کے اندر دوسری مرتبہ انہیں بیرون ملک جانے سے روکا گیا ہے۔

نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر منگل کے روز ثنا ارشاد مٹو  کو بھارتی امیگریشن حکام نے اس وقت روک دیا جب وہ نیویارک جانے والی تھی۔ ایک برس کے اندر یہ دوسرا موقع ہے جب انہیں بیرون ملک جانے سے روکا گیا ہے۔ جولائی میں ایک کتاب کے اجراء اور تصویروں کی نمائش میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے بھی انہیں روک دیا گیا تھا۔

ثنا مٹو نے ایک ٹوئٹ کرکے اس واقعے کی اطلاع دی۔ انہوں نے لکھا، “میں پلٹرز انعام حاصل کرنے کے لیے نیویارک جارہی تھی لیکن دہلی ہوائی اڈے پر امیگریشن پر مجھے روک دیا گیا اور بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ میرے پاس امریکہ کا باضابطہ ویزا اور سفری ٹکٹ بھی موجود تھا۔”

کشمیری فوٹو جرنلسٹ نے مزید لکھا، “یہ دوسرا موقع ہے جب مجھے کوئی وجہ بتائے بغیر باہر جانے سے روکا گیا۔ چند ماہ قبل بھی میرے ساتھ جو ہوا تھا اس سلسلے میں میں نے بہت سے حکام سے ملاقات کی لیکن کسی نے بھی اس کی وجہ نہیں بتائی۔ کسی تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کا موقع زندگی میں کبھی کبھی ہی ملتا ہے اور میرے لیے یہ ایک موقع تھا۔”

حکومت کے رویے کی مذمت

ایک کشمیری صحافی کو انعام حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے سے روکنے کے حکومت کے فیصلے کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ متعدد صحافیوں اور صحافیوں کی تنظیموں نے بی جے پی حکومت کے اس رویے کو “انتہائی افسوس ناک اور شرمناک” قرار دیا ہے۔

سینیئر صحافی اور دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) کی جنرل سکریٹری سجاتا مدھوک نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “یہ صرف پریس کی آزادی پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی بھارتی شہری کی ہر طرح کی آزادی پر حملہ ہے۔ آپ اپنے کسی شہری کو باہر جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟”

انہوں نے مزید کہا، “وہ(ثنا) ایک ایوارڈ یافتہ فوٹو گرافر ہیں، وہ انعام لینے جارہی تھیں۔ انہیں بار بار روک کر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ صرف کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہی نہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی حکومت پہلے بھی ایسا کرتی رہی ہے۔”

سجاتا مدھوک کا کہناتھا، “اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی کشمیری صحافی کو باہر جانے سے روک کر کشمیر کے معاملات اور اصل حقائق کو دنیا سے چھپایا جا سکتا ہے یہ بالکل بے معنی ہے۔ جب آپ کسی کو روک دیتے ہیں تب بھی خبر بن جاتی ہے۔ آپ حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔”

کشمیری صحافیوں کے ساتھ یہ عام بات ہے

گزشتہ برسوں کے دوران متعدد کشمیری صحافیوں کو باہر جانے سے روکا جاچکا ہے۔ 26 جولائی کو کشمیری صحافی آکاش حسن برطانوی اخبار’ گارڈین’ کے لیے سری لنکا جانے والے تھے لیکن دہلی ہوائی اڈے پر انہیں روک دیا گیا تھا۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) کے مطابق حکام نے حسن کو بتایا کہ ان کا نام ایک لک آوٹ سرکلر فہرست میں شامل ہے۔ اس فہرست میں ان لوگوں کے نام ہیں جن کے خلاف کسی جرم کا الزام ہے۔ حالانکہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ایسے کسی بھی الزام کے بارے میں حکام نے انہیں کبھی نہیں بتایا۔

کشمیری صحافی گوہر گیلانی کو بھی سن 2019 میں ڈی ڈبلیو کے ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے جرمنی جانے سے روک دیا گیا تھا۔ انہیں کئی گھنٹوں تک دہلی ہوائی اڈے پر روکے رکھا گیا تھا اور بعد میں بتایا گیا کہ انہیں بھارت سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

میڈیا کی آزادی پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز نے اپنی تازہ ترین ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں 180ملکوں کی فہرست میں بھارت کو 150واں مقام دیا ہے۔ گزشتہ برس بھارت 142ویں مقام پر تھا اور ایک برس میں مزید 8 مقام نیچے گر گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں