ایران کے احتجاجی قیدیوں کو تشدد اور موت کا خطرہ

تہران (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) انسانی حقوق کے گروپوں نےخبردار کیا ہے کہ مہسا امینی کی موت سے شروع ہونے والے مظاہروں کےخلاف کریک ڈاؤن میں گرفتار کیے گئے ایرانی مہم جوؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے موت کا خطرہ لاحق ہے۔

22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں اخلاقی پولیس نے مناسب انداز میں سر نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا تھا۔ پولیس حراست میں ان کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور جو اب ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔

دل دہلا دینے والے مناظر

جمعرات 20 اکتوبر کو آزادی اظہار کے کارکن حسین رونقی کی گرفتاری کی چونکا دینے والی تصاویر سامنے آئیں۔ جب وہ استغاثہ کے دفتر میں پیش ہوئے تو ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ 24 ستمبر کو ان کی گرفتاری کے بعد سے، وہ تہران کی ایون جیل میں قید ہیں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں گردے کی بیماری کی وجہ سے موت کا خطرہ ہے۔ حسین رونقی کے گھر والوں کا  یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔

حسین رونقی ان کئی نامور کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء میں سے  ایک ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے اور جن کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ شاید وہ بدنام زمانہ ایون جیل سے کبھی زندہ نہ نکلیں، جہاں زیادہ تر سیاسی قیدی رکھے جاتے ہیں۔

ایرانی حکام کے مطابق 15 اکتوبر کو ایون جیل میں آتش زدگی کے ایک واقعے میں آٹھ قیدی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں خدشات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ کارکنوں نے الزام عائد کیا ہے کہ جیل کے اندر حکام نے آنسو گیس اور دھاتی چھروں کا استعمال کیا تاہم کسی ایک سیاسی قیدی کو بھی نقصان پہنچنے کے کوئی اطلاع نہیں ہے۔

محمود امیری مقدم اوسلو میں قائم ایک ایرانی ہیومن رائٹس گروپ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”حراست میں لیے گئے اور زبردستی لاپتہ کر دیے جانے والوں کو تشدد اور موت کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوری کارروائی اشد ضروری ہے۔‘‘

بڑے پیمانے پر گرفتاریاں

محمود امیری مقدم  کے مطابق ایران میں حالیہ مظاہروں کو کچلنے اور مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت ملک بھر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چُکا ہے، جن میں کم از کم 36 صحافی، 170 طلبا، 14 وکلاء اور سول سوساسٹی کے 580 سے زائد سرگرم کارکن شامل ہیں۔

اُدھر واشنگٹن میں قائم عبدالرحمان بورومند سینٹر کی ڈائریکر رویا بورومند کا کہنا ہے  کہ ایون جیل اور تہران کی فاشہ فویہ جیل میں بہت بڑی تعداد میں قیدی لائے جا رہے ہیں اور اس کے سبب صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ”ہم زیر حراست افراد کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں سے بھری جیلوں میں قیدیوں کو باری باری بیٹھنے اور سونے کی جگہ ملتی ہے۔

حسین رونقی وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور ان کا شمار اسلامی جمہریہ ایران میں کئی سالوں سے سب سے نڈر ناقدوں میں ہوتا ہے۔

زیر حراست افراد کی تشویشناک صورتحال

ایران کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1979 ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے حالیہ ملک گیر احتجاجی لہر کا مقابلہ کرنا تہران حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں آیت اللہ خامنہ ای کی ایک اہم حکمت عملی ہے۔  

ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ ایران میں کچھ زیر حراست افراد زبردستی اور تشدد کے تحت جرم کا اعتراف ٹیلی وژن پر کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں زیر حراست جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ واشنگٹن میں قائم عبدالرحمان بورومند سینٹر کی ڈائریکر رویا بورومند کے بقول، ”قیدیوں نے تفتیش کے دوران شدید مار پیٹ، کھانے اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہونے کی گواہی دی ہے۔ بورومند نے مزید کہا، ”زیر حراست افراد، جنہیں شاٹ گن کی گولیاں لگی ہوتی ہیں اور ان کے جسمانی اعضا ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں بغیر کسی طبی امداد کے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں