داعش کے جنگجوؤں کے اہل خانہ کی آسٹریلیا واپسی

کینبرا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/رائٹرز) دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے جنگجوؤں کی بیویوں اور بچوں کا ایک گروپ شام میں برسوں گزارنے کے بعد آسٹریلیا واپس آ گیا۔ کینبرا ایسی مزید خواتین اور بچوں کو وطن واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سڈنی میں چار خواتین اور 13 بچوں کی آمد کے ساتھ ہی، آسٹریلیا نے شمالی شام میں نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ ”اسلامک اسٹیٹ” (داعش) کے لیے لڑنے والے افراد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو وطن واپس لانے کے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔

آسٹریلیا پہنچنے والا یہ گروپ شام کے بدنام زمانہ الروز کیمپ میں رہتا تھا۔ یہ کیمپ اسلامک اسٹیٹ کے زوال کے بعد، اس گروپ کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے خاندان کے افراد کی رہائش کے لیے بنایا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے آسٹریلوی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن قدامت پسند لبرل نیشنل اپوزیشن بلاک نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔

حکومت نے اقدام کا دفاع کیا

آسٹریلوی وزیر داخلہ کلیئر اونیل نے ایک بیان میں کہا، ”قومی سلامتی کے اداروں کے تفصیلی کام کے بعد ان افراد سے متعلق انفرادی جائزہ پیش کیا گیا اور پھر ان خواتین اور ان کے بچوں کو وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔”

وزیر داخلہ حزب اختلاف کے ان دعوؤں کا جواب دے رہی تھیں کہ شام سے وطن واپس آنے والے یہ شہری آسٹریلیا کے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں اور اس اقدام کے تحت حکومت نے تمام آسٹریلوی شہریوں کی سکیورٹی کا خیال نہیں رکھا۔

وزیر داخلہ نے امریکہ، اٹلی، جرمنی، فرانس، نیدرلینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اسی طرح کے اقدامات کی طرف بھی اشارہ کیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ شام میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی وجہ سے بعض خواتین پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات بھی درج کیے جا سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ او نیل کا کہنا تھا کہ مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق ایسے کسی بھی الزامات کی تحقیقات کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا، ”کوئی بھی قابل شناخت جرم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کا باعث بن سکتا ہے۔” ان کا مزید کہنا  تھاکہ نیو ساؤتھ ویلز کی علاقائی حکومت اس گروپ کو آسٹریلیا میں دوبارہ ضم کرنے کی کوشش کے تحت مدد کے لیے ”وسیع تر تعاون اور خدمات” فراہم کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کے گروپ کافی خوش

انسانی حقوق  کی بین الاقوامی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ (ایچ آڑ ڈبلیو) نے سخت حالات میں پھنسے آسٹریلیا کے ان شہریوں کو بچانے کے لیے ”تاخیر سے اٹھائے گئے ا قدام” کا خیر مقدم کیا۔ ادارے کی ایک محقق صوفی میک نیل نے کہا، ”برسوں سے، آسٹریلوی حکومت نے اپنے شہریوں کو شمال مشرقی شام میں بند کیمپوں میں خوفناک حالات میں چھوڑ رکھا تھا۔”

”آسٹریلیا اپنے شہریوں کی اس طرح کی منظم وطن واپسی کے ذریعے، انسداد دہشت گردی کے حوالے سے قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر تو ایسے بچے ہیں جنہوں نے کبھی بھی داعش کے لیے لڑنے یا وہاں رہنے کا انتخاب نہیں کیا تھا۔”

شمالی شام میں ایسے حراستی کیمپ چلانے والے کرد حکام نے بیشتر غیر ملکی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو وطن واپس لانے کا بند و بست کریں، تاکہ کیمپوں پر دباؤ کم ہو سکے۔

آسٹریلیا نے سب سے پہلا ایسا قدم سن 2019 میں اٹھایا تھا، جب آئی ایس کے دو ہلاک شدہ جنگجوؤں کے آٹھ بچوں اور پوتے پوتیوں کی وطن واپسی ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں ملک کے نئے مشن کا مقصد اسی طرح کی کل 20 خواتین اور 40 بچوں کو وطن واپس لانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں