عالمی فوجداری عدالت نے افغان جنگی جرائم کی تحقیقات کی اجازت دے دی

دی ہيگ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) آئی سی سی نے افغانستان ميں انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزيوں کی تحقيقات بحال کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ ججوں کے مطابق موجودہ کابل انتظاميہ نے داخلی سطح پر نہ تو ايسی تفتيش کرائی اور نہ ہی کرانے ميں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے افغانستان ميں انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزيوں کی تحقيقات کی اجازت دے دی ہے۔ پير اکتيس اکتوبر کو آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ بيان کے مطابق موجودہ کابل انتظاميہ نے داخلی سطح پر تفتيش ميں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے يہ فيصلہ کيا گيا۔

2020ء کے اوائل ميں اس وقت کی کابل انتظاميہ نے ہالينڈ کے شہر دی ہيگ ميں قائم انٹرنيشنل کرمنل کورٹ سے درخواست کی تھی کہ افغانستان ميں انسانی حقوق کی مبينہ پاماليوں کی تحقيقات کچھ مدت کے ليے معطل کر دی جائيں تاکہ کابل حکومت داخلی سطح پر تفتيش کرا سکے۔ گزشتہ برس اگست ميں البتہ امريکی حمايت يافتہ کابل حکومت ختم ہو گئی اور افغانستان پر طالبان کی عمل داری قائم ہو گئی۔

آئی سی سی نے اس ضمن ميں جاری کردہ بيان ميں کہا، ”جج اس نتيجے پر پہنچے ہيں کہ اس وقت افغانستان ميں تحقيقات اس طريقے سے نہيں ہو رہيں، جو کہ عدالت کے تفتيش روکے جانے کے فيصلے کی وجہ بنی۔ افغان اتھارٹياں 26 مارچ 2020ء کو جمع کردہ تحقيقات معطل کرنے کی درخواست کے تناظر ميں داخلی سطح پر مناسب کارروائی ميں کوئی دلچسپی ظاہر نہيں کر رہيں۔‘‘

گزشتہ برس ستمبر ميں استغاثہ نے آئی سی سی کے ججوں سے رجوع کر کے ان سے تحقيقات بحال کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کی درخواست موجودہ کابل انتظاميہ کے سامنے بھی رکھی گئی ليکن ان پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آيا۔ اسی تناظر ميں 31 اکتوبر کو ججوں نے فيصلہ کيا کہ افغانستان کا رد عمل يہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظاميہ نے نہ تو ان معاملات کی جانچ پڑتال کی ہے اور نہ ہی ايسا کوئی عمل اس وقت جاری ہے۔ ايسے ميں آئی سی سی نے پراسکيوٹرز کو تحقيقات کا عمل بحال کرنے کا کہہ ديا ہے۔

سن 2020 ميں آئی سی سی کے سابق چيف پراسيکيوٹر فاتو بنسودا نے کہا تھا کہ طالبان کے علاوہ امريکی فورسز اور ديگر ملکوں ميں امريکی سی آئی اے پر بھی انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا شبہ ہے۔ البتہ موجودہ چيف پراسيکيوٹر کريم خان نے پچھلے سال امريکہ کو تفتيش کے زمرے سے يہ کہہ کر فہرست سے خارج کر ديا تھا کہ سب سے سنگين جرائم ممکنہ طور پر داعش اور طالبان نے کیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں