عمران خان ہسپتال سے گھر منتقل، دو دن بعد لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان شوکت خانم اسپتال سے لاہور میں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ گھر منتقلی سے قبل اسپتال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے دو دن بعد منگل سے ایک بار پھر لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا البتہ وہ خود لانگ مارچ میں راولپنڈی سے آگے اس کی قیادت کریں گے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق عمران خان کو اسپتال سے لاہور میں ان کے زمان پارک میں گھر منتقل کیا گیا۔

عمران خان کو تین دن قبل پنجاب کے شہر وزیرآباد میں اس وقت فائرنگ میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔ حملہ آور کو اسی وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ پی ٹی آئی نے اس واقعے میں حکومتی شخصیات اور سیکیورٹی افسران کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

اسپتال سے گھر منتقل ہونے سے قبل اتوار کو پریس کانفرنس میں عمران خان کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے منگل سے وزیر آباد سے لانگ مارچ دوبارہ شروع ہو گا۔ ان کے مطابق وہ روزانہ مارچ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔

شوکت خانم اسپتال میں میڈیا سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مارچ 10 سے 15 دن میں راولپنڈی پہنچے گا جب کہ وہ راولپنڈی سے آگے مارچ کی قیادت کریں گے۔

وزیر آباد میں فائرنگ کے واقعے کے مقدمے کے اندراج پر عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں ہماری حکومت ہے البتہ تین دن ہو گئے ہیں ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری حکومت کے ماتحت پولیس ہی مقدمے کے اندراج سے منع کر رہی ہے۔

عمران خان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو خوش آئند قرار دیا۔

سابق وزیرِ اعظم نے خدشات کا اظہار کیا کہ ان پر حملہ تین لوگوں نے کرایا ہے۔ وہی تین افراد اوپر کے عہدوں پر موجود ہیں، ایسے میں صاف شفاف تحقیقات کا کیسے ممکن ہے؟ اس لیے انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ تین لوگ پہلے مستعفی ہوں۔

واضح ہے کہ عمران خان نے جمعرات کو حملے کے فوری بعد ایک بیان میں اس کا ذمے دار وزیرِ اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور ملک کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے کاؤنٹر انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کو قرار دیا تھا۔

اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ حملے سے پہلے ایک ویڈیو جاری کی جاتی ہے، جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ توہینِ مذہب کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ ویڈیو ایک صحافی سوشل میڈیا پر شیئر کرتا، جس کی وابستگی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔انہوں نے اس ویڈیو کے حوالے سے سوالات اٹھائے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ویڈیو کہاں سے نکلتی ہے، کون نکالتا ہے؟ اس کا بھی تو پتا چلنا چاہیے۔

توہینِ مذہب کے مبینہ الزام میں 2011 میں قتل ہونے والے پنجاب کے اس وقت کے گورنر کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ انہیں سلمان تاثیر کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے جب کہ وہ پہلے ہی جلسوں میں بتا چکے تھے کہ کیسے انہوں نے ایک مذہبی جنونی کو استعما ل کرنا ہے۔

خود پر ہونے والے حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سابق وزیرِِ اعظم کا کہنا تھا کہ جب یہ واردات ہوتی ہے تو اس کے بعد کون رد عمل دیتا ہے؟ اچانک سے بیانات آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ عمران خان نے توہینِ مذہب کی ہےجب کہ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ٹوئٹس آنا شروع ہو جاتے ہیں۔عمران خان کے بقول حملہ آور کی ویڈیو کہاں سے نکلتی ہے اور پھر حملہ آور کا انٹرویو بھی لیک کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جب پولیس سے پوچھاجاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ان پر پیچھے سے پریشر تھا۔ ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی تحقیقات ہوں گی تو پتا چلے گا کہ یہ کس نے کیا اور پھر اسے کس نے کور کیا؟

صحافی ارشد شریف کے قتل کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ ان کی والدہ کو معلوم ہے کہ کون لوگ ملوث تھے۔ اس قتل پر بھی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

اپنی حکومت کی تبدیلی پر ان کا کہنا تھا کہ اگر سائفر ڈرامہ تھا تو سائفر کی تحقیقات کیوں نہیں کرا رہے؟ اسپیکر نے تو چیف جسٹس کوخط ارسال کر دیا تھا کہ تحقیقات کی جائیں۔

عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے لیکن جب تک آپ تحقیقات نہیں کریں گے پتا کیسے لگے گا یہ سائفر تھا یا سازش تھی؟

سینیٹر اعظم سواتی کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ پہلے اعظم خان سواتی پر پوتے اور پوتیوں کے سامنے تشدد کیا گیا۔پھر ان کی ویڈیو سامنے آئی اعظم سواتی کے پاس اصلی ویڈیو موجود ہے، وہ فیک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعظم خان سواتی سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کریں گے، دھرنا دیں گے۔ ان کے احتجاج میں تحریکِ انصاف کے سینیٹرز اور وکلا بھی شریک ہوں گے۔ان کے بقول ’’کوئی لائن سے ہٹے گا تو اسے بلیک میل کریں گے کہ میاں بیوی کی ویڈیو بنا کر اس کو بھیج دیں گے۔‘‘

چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ایک ایسا خوف لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

عمران خان کا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر رد عمل

عمران خان کا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو کہا اس پر توجہ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ کہیں کہ ایک جج دو نمبر ہے تو اس کا مطلب ساری عدلیہ دو نمبر ہے۔ اگر کوئی کہے کہ پی ٹی آئی میں کوئی کرپٹ ہے تو اس کا مطلب کہ ساری پی ٹی آئی کرپٹ ہے؟

فوج کے احتساب کے نظام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ کا کورٹ مارشل کیوں ہوتا ہے؟ کوئی غلطی کرتا ہے تو افسر کا کوٹ مارشل ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر قتل کی سازش کے پیچھے تین افراد ہیں، تو یہ ان کا حق ہے اور وہ ایک عام شہری سے اس لیے بھی مختلف ہیں کیوں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں اور اگر وہ ایف آئی آر میں آئی ایس آئی کے افسر کا نام نہیں لکھوا سکتے، تو پھر عام آدمی پر کیا گزرتی ہو گی اور عام آدمی اس ملک میں کیا کرتا ہو گا؟

واضح رہے کہ جمعے کو آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ادارے اور مخصوص افسر کے خلاف الزامات ناقابلِ قبول ہیں۔فوج ہر قیمت پر اپنے افسران کا تحفظ کرے گی۔

بیان میں حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ بغیر ثبوت ادارے پر الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں