جرمنی میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کیخلاف کارروائی، 25 گرفتار

برلن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) چھاپوں کے دوران جرمن پولیس نے دائیں بازو کے پچیس انتہا پسندوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ عناصر ایک’’ مقامی ہشت گرد تنظیم‘‘ کے اراکین یا حامی ہیں جو جرمن ریاست کا تختہ الٹنے اور اسکے قوانین و ضوابط تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

وفاقی جرمن پولیس نے بُدھ کی صبح ملک بھر میں چھاپے مارے اور ایک دہشت گرد تنظیم کے 25 مشتبہ اوراکین یا حامیوں کو گرفتار کر لیا۔ اس چھاپہ مار کارروائی کا اعلان جرمنی کی وفاقی پراسیکیوشن ایجنسی اور جرمن وزیر انصاف مارکو بوش من نے کیا۔ جرمن وزیر نے کہا کہ ان تحقیقات کی ہدایات دراصل ایک مشتبہ دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف کی گئی جس کا تعلق reichsbürger موومنٹ یا ” ‘رائش سیٹیزنز موومنٹ‘‘ سے ہے۔

جرمن وزیر انصاف مارکو بوش من نے کہا کہ چھاپے ایسے افراد کے خلاف مارے گئے جن پر ریاستی اداروں پر مسلح حملے کی منصوبہ بندی کا شبہ ہے۔ ُبدھ کو اپنے بیان میں جرمن وزیر انصاف کا کہنا تھا،”آج صبح سے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع ہو رہا ہے۔ فیڈرل پبلک پراسیکیوٹر جنرل رائش سیٹیزنز موومنٹ مشتبہ دہشت گرد نیٹ ورک کی تحقیقات کر رہا ہے۔‘‘ مارکو بوش من کے بقول،”یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ آئینی اداروں پر مسلح حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘‘

سرچ آپریشن کا دائرہ کار

جرمن پولیس کی طرف سے کی گئی چھاپہ مار کارروائی میں جرمنی کی گیارہ ریاستوں میں 52 مشتبہ افراد کی 130 املاک یا جائیدادوں کا احاطہ کیا گیا۔

استغاثہ کے حکام کے مطابق گرفتار ملزمان کا تعلق نومبر 2021ء کے آخر میں قائم ہونے والی ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے، جس نے خود کو جرمنی کے موجودہ ریاستی نظام سے انحراف کرتے ہوئے اس پر قابو پانے اور اس کی جگہ ریاست کی اپنی شکل دینے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس پورے منصوبے کا خاکہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے۔ جرمنی کی قومی انٹیلی جنس ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اس تحریک کے تقریباً 21 ہزار پیروکار ہیں۔

گرفتار کیے گئے 25 مردوں اور عورتوں میں سے 24 کا تعلق جرمنی سے ہے اور ایک مشتبہ حامی کا تعلق روس سے ہے۔ اس سلسلے میں ایک گرفتاری آسٹریا اور ایک اٹلی میں بھی عمل میں آئی ہے۔ وفاقی پراسیکیوٹر کے دفتر نے بتایا کہ ان کی نگاہ 27 دیگر مشتبہ افراد پر بھی ہے۔

رائش سیٹیزنز موومنٹ بہت سی چھوٹی تنظیموں اور افراد پر مشتمل ہے، خاص طور پر جرمن ریاست برانڈنبرگ، میکلنبُرگ-ویسٹرن پومیرینیا اور باویریا میں۔ اس تحریک کے اراکین اور حامی نہ تو وفاقی جمہوریہ جرمنی اور نہ ہی اس کے کسی سرکاری حکام اور اداروں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان افراد کا استدلال ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے جرمن آئین کو کبھی مکمل طور پر کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا نہ ہی اسے منسوخ یا مسترد کیا گیا تھا، اس لیے 1949ء میں مغربی جرمنی کی تشکیل اور اب دوبارہ متحد جرمنی کی قانونی حیثیت درست نہیں ہے۔ یعنی رائش سیٹیزنز موومنٹ سے وابستہ تمام افراد وفاقی جمہوریہ جرمنی کی موجودہ قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ Drittes Reich کی اصطلاح تاریخ میں جرمن نیشنل سوشلسٹوں کے دور کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ 1920ء کے عشرے میں قومی تحریک چلانے والے اور نازی سوشلسٹوں نے اسے اپنے سیاسی پروپگینڈا کے لیے بطور قومیت پرستی بھی استعمال کیا۔ یہ دور ہٹلر کا نازی دور تھا اس لیے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اس اصطلاح کو انتہای تنقید کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور اسے ترک کر دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں