امریکی جج نے محمد بن سلمان کے خلاف صحافی جمال خاشقجی کا کیس خارج کردیا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) امریکی حکومت نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق مقدمات میں استثنی کی بات کہی تھی۔ ایک امریکی جج نے کہا کہ ان کے پاس بھی حکومت کے موقف پر تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

امریکہ میں چھ دسمبر منگل کے روز ایک جج نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی کی جانب سے سعودی عرب کے ولی عہدمحمد بن سلمان کے خلاف دائر کردہ مقدمے کو مسترد کر دیا۔

سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو سن 2018 میں ترکی میں ایک سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ اداروں نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ محمد بن سلمان نے ہی اس قتل کا حکم دیا تھا۔

لیکن گزشتہ ماہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ سعودی سلطنت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا انہیں اس طرح کے مقدموں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکہ میں قانونی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا، اسی طرز پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی استثنٰی دیا گیا ہے۔

جج نے کیا کہا؟

واشنگٹن ڈی سی کے فیڈرل جج جان بیٹس نے کہا کہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اورایک انسانی حقوق گروپ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں ”مضبوط” اور ”قابل ستائش” دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس قتل کے پیچھے سعودی شہزادے کا ہی ہاتھ تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کے پاس امریکی حکومت کے موقف کو مسترد کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ہی سعودی عرب سمیت تمام خارجہ امور کی ذمہ دار ہے اور اس عدالت کی جانب سے محمد بن سلمان کو استثنیٰ دیے جانے کے خلاف کوئی بھی فیصلہ، ان ذمہ داریوں میں غیر ضروری مداخلت کا باعث بنے گا۔

محمد بن سلمان کو گزشتہ ستمبر میں سعودی عرب کا وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا اور اس حیثیت سے امریکی عدالتوں میں غیر ملکی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے سے پہلے، وہ کئی برسوں سے اپنے 86 سالہ والد شاہ سلمان کے ماتحت مملکت کے عملاً حکمران بھی رہے ہیں۔

جج بیٹس نے کہا کہ شہزادے کے خلاف ”قابل اعتماد” الزامات، اور پھر اچانک وزارت عظمی کے عہدے پر ان کی تقرری کا وقت اور جس طرح سے امریکی حکومت نے انہیں استثنی دینے کی سفارش کی، اس نے انہیں ”بے چینی” میں مبتلا کر دیا۔

انصاف کے لیے جدوجہد جاری

انسانی حقوق کے گروپ ‘ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ’ (ڈی اے ڈبلیو این) جسے خود جمال خاشقجی نے قائم کیا تھا، نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ یہ تنظیم اس مقدمے کی ایک فریق بھی ہے۔

ڈی اے ڈبلیو این کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لیہ وٹسن نے کہا کہ یہ مقدمہ تو، خاشقجی کے قتل کے لیے انصاف اور احتساب کی کوششوں کا ”صرف ایک حصہ” ہے، جبکہ سعودی حکومت اپنے شہریوں کے خلاف بہت سے دیگر جرائم بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام کہا کہ ”انصاف کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے” اور اس حوالے سے دیگر ممکنہ قانونی کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اکتوبر 2018 میں سعودی ایجنٹوں نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا تھا، جہاں وہ ایک ترک شہری خدیجہ چنگیزی سے شادی کے لیے ضروری دستاویزات لینے گئے تھے۔

سعودی عرب کے ولی عہد نے پہلے خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کی تردید کی تھی۔ تاہم گزشتہ برس میڈیا ادارے پی بی ایس کے ساتھ ایک دستاویزی فلم میں انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ قتل ”میری نگرانی میں ” ہوا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خاشقجی سعودی حکومت اور ولی عہد کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں