بھارت میں 2022 میں بھی مذہبی اقلیتوں پر حملے جاری رہے، ہیومن رائٹس واچ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے جمعرات کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں 2022 میں بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک اور انہیں بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامیوں کی جانب سے مذہبی طبقات کے خلاف پرتشدد حملے کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت کا ہندو اکثریت پرستی کا نظریہ عدلیہ اور قومی اقلیتی کمیشن سمیت دیگر آئینی اداروں کی کارروائیوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے الزام کے ثبوت میں گجرات حکومت کی جانب سے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی و قتل کیس کے مجرموں کی قبل از وقت معافی و رہائی، سو سے زائد بااثر مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی اور مسلمانوں کے مکانوں کو مختلف بہانوں سے منہدم کرنے جیسے متعدد واقعات پیش کیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی پر جشن اور ان کی عوامی پذیرائی سے اقلیتی برادریوں اور خواتین کے خلاف جرائم کے سلسلے میں حکومت کے امتیازی رویے کا پتا چلتا ہے۔

رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے مکانوں کے انہدام پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز نے حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو گرفتار کیا۔ اس سلسلے میں اس نے ریاست جھارکھنڈ میں صحافی روپیش کمار اور اترپردیش میں صحافی صدیق کپن کی گرفتاری کا بطور خاص حوالہ دیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر کی گزشتہ سال جون میں ہونے والی گرفتاری کے سلسلے میں کہا کہ یہ گرفتاری ایک ٹیلی ویژن نیوز نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے خلاف انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ مذکورہ چینل نے پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی کی ایک ترجمان کے متنازع بیان کو نشر کیا تھا جس کی متعدد مسلم ملکوں نے مذمت کی تھی۔

رپورٹ میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن تیستا سیتلواڈ اور بی آر سری کمار اور سنجیو بھٹ جیسے پولیس عہدے داروں کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ پولیس کارروائی 2002 کے گجرات تشدد میں ذمہ داری طے کرنے کی کوششوں کے خلاف بظاہر انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کے خاتمے کے تین سال بعد بھی پرتشدد واقعات ہو رہے ہیں۔

گزشتہ سال اکتوبر تک وہاں تشدد میں 229 افراد ہلاک ہوئے جن میں 28 سویلین، 29 سیکیورٹی جوان اور 172 مشتبہ دہشت گرد ہیں۔ وادی میں کشمیری پنڈتوں اور سکھوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائرکٹر میناکشی گانگولی کے مطابق بی جے پی حکومت کی جانب سے ہندو اکثریت پرستی کو آگے بڑھانے کی وجہ سے بقول ان کے انتظامیہ اور بی جے پی حامیوں میں اشتعال انگیزی آئی ہے اور انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملے کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ حکومت پر تنقید کی وجہ سے صحافیوں کی گرفتاری اور انسانی حقوق کے دفاتر بند کرنے کے بجائے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔

بھارت میں سرگرم انسانی حقوق کے کاکنوں کی جانب سے بھی ان واقعات کا ذکر کیا جاتا رہا اور یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ اس حکومت میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں اور حکومت ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کرتی ہے۔

انسانی حقوق کے سینئر کارکن تپن بوس کا کہنا ہے کہ یہ حکومت نہ صرف یہ کہ ہندو اکثریت پرستی کے نظریے کو آگے بڑھا رہی ہے بلکہ وہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے اقلیتوں پر حملوں کے الزامات کو درست قرار دیا اور کہا کہ حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔

انہوں نے گجرات کے شہرسورت میں ہندو مذہب کے تہوار گربا ڈانس کے دوران مبینہ طور پر مسلمانوں کی جانب سے تشدد برپا کرنے کے الزام میں ان کی بجلی کے ایک کھمبے سے باندھ کر سرعام پٹائی کا حوالہ دیا اور کہا کہ آج تک اس معاملے میں قصوروار پولیس والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اس کا کسی کو علم نہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن کی کمیٹی برائے مسلم امور کے سابق رکن اور انسانی حقوق کے کارکن اویس سلطان خان کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے اس سے قبل بھی اس قسم کی رپورٹ جاری کی ہے اور بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

ان کے مطابق مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن، انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور انسانی حقوق کے دیگر ادارے بھی شدت پسند ہندو تنظیموں کی کارروائیوں پر اظہار تشویش کرتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت اور حکمراں جماعت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ جب کسی کے خلاف کوئی شکایت کی جاتی ہے تب پولیس کارروائی کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی مذہبی اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔

اس سے قبل جب مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالی پر تشویش کا اظہار کیا تھا تو حکومت نے اس رپورٹ کو ناکافی اور ناقص معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ بھارت ایک تکثیری معاشرہ ہے جہاں آئین تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی دیتا ہے۔ بھات میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ حکومت آئین میں دی گئی شہریوں کی آزادی کے تحفظ کی پابند ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں