پاکستان اقلیتی لڑکیوں کی جبری شادیوں اور تبدیلیٔ مذہب کو روکے، اقوامِ متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں میں مبینہ اضافے پر ‘خطرے کا اظہار’ کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے پیر کو جاری ایک بیان کے مطابق ماہرین نے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ قانون سازی اور مجرموں کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے انسانی حقوق کے بین الاقوامی وعدوں کے مطابق ان کارروائیوں کی تحقیقات کرے۔

انسانی حقوق کے تقریباً 12 آزاد ماہرین کے گروپ میں بچوں کی فروخت، جنسی استحصال، خواتین کے خلاف تشدد، اقلیتوں کے مسائل اور غلامی کی دورِ حاضر کی شکلوں پر خصوصی نمائندے شامل ہیں۔

بیان میں ماہرین نے کہا کہ “ہمیں یہ سن کر سخت پریشانی ہوئی ہے کہ 13 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کو ان کے خاندانوں سے اغوا کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں سے دور جگہوں پر اسمگل کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات ان کی عمر سے دوگنے مردوں سے شادی کی جاتی ہے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ سب بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔”

مذہبی اقلیتوں کے خلاف یہ کارروائیاں مبینہ طور پر لڑکیوں اور خواتین یا ان کے خاندانوں پر تشدد کی دھمکیوں کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔

ماہرین نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ نام نہاد شادیاں اور تبدیلیاں پاکستانی مذہبی حکام کی شمولیت اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ نظام انصاف کی ملی بھگت سے کی جا رہی ہیں۔

بیان کے مطابق خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ متاثرین کی شکایات کو پولیس کی جانب سے شاذ و نادر ہی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔

ماہرین نے زور دیا ہے کہ پاکستانی حکام کو زبردستی تبدیلی مذہب، بچیوں کی زبردستی شادی ، اغوا اور اسمگلنگ کو روکنے سے متعلق قانون سازی کو اپنانا اور نافذ کرنا چاہیے، جب کہ خواتین اور بچوں کے حقوق کو برقرار رکھنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے بیان پر پاکستانی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

مقامی اور غیر ملکی انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ہندوؤں اور عیسائیوں سمیت اقلیتی مذاہب کی پیروکار نوجوان خواتین کی جبری تبدیلی اور شادی پاکستان میں ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔

ان کارروائیؑوں کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ مجرم قانونی کارروائی سے بچ جاتے ہیں کیوں کہ جبری تبدیلی کو اکثر عدالتوں میں ایک مذہبی مسئلہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال ایسے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ متاثرین بنیادی طور پر غریب خاندانوں اور نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اغوا کی گئی ہندو لڑکیوں کی زبردستی تبدیلی مذہب اور مسلم مردوں سے شادیوں کے زیادہ تر واقعات جنوبی صوبہ سندھ میں معمول کی بات ہے، جہاں تقریباً 90 فی صد اقلیتی برادری مقیم ہے۔

پاکستان کی تقریباً 22 کروڑ کی آبادی میں ہندو 2 فیصد اور عیسائی 1 اعشاریہ 5 فیصد سے بھی کم ہیں۔

پاکستانی حکومت مذہبی اقلیتوں کو ایسے طریقوں سے بچانے کے لیے جبری تبدیلی کو غیر قانونی قرار دینے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔اکتوبر 2021 میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایک مجوزہ بل کو ختم کر دیا تھا جس میں جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینے اور 10 سال تک قید کی تجویز دی گئی تھی۔

اقوامِ متحدہ کے پیر کو جاری کردہ بیان نے پاکستان کی جانب سے جبری تبدیلی پر پابندی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی قانون سازی کی سابقہ کوششوں کو نوٹ کیا اور ماہرین نے متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف کی فراہمی میں کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں