پشاور: پولیس لائنز مسجد دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 ہوگئی، 221 زخمی

​​​​​​​پشاور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد شروع ہونے والا ریسکیو آپریشن منگل کی دوپہر مکمل کرلیا گیا ہے۔ نگران وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا نے واقعے میں 100 افراد کی ہلاکت اور 221 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اسپتال میں اب بھی 53 زخمی زیرِ علاج ہیں جن میں سے سات انتہائی نگہداشت وارڈز میں ہیں۔

منگل کو نگراں وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک یا دو روز کی نہیں بلکہ ایک ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنا شروع کی ہے جس میں ہم مشتبہ عناصر، سہولت کاروں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں روزانہ 1500 سے دو ہزار افراد کی آمد و رفت رہتی تھی۔ ان کے بقول یہ بہت بڑی تحقیقات ہیں اور اس سلسلے میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران ملبے سے مجموعی طور پر 24 لاشیں اور نو افراد کو زندہ نکالا گیا۔

ہلاک ہونے والوں میں پولیس افسران، اہلکار اور ملازمین کے علاوہ مسجد کا خطیب اور ایک خاتون سینیٹری ورکر بھی شامل ہے۔

اس سے قبل پشاور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز پشاور 120 سال پہلے 600 جوانوں کے لیے بنائی گئی تھی جہاں دو ہزار سے زائد اہلکار اور آٹھ مختلف محکمے ہیں۔ سی سی پی او اور ایس ایس پی آپریشنز کے دفاتربھی یہیں موجود ہیں جہاں عوام اور سائلین کی ایک بہت بڑی تعداد کا روزانہ آنا جانا ہوتا ہے۔

جائے وقوع پر بھاری مشینری کی مدد سے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور فوج کے دستے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ریسکیو حکام کے مطابق مسجد کے ملبے تلے اب بھی متعدد افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مطابق نگراں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی ہدایت پر پشاور دھماکےکے غم میں صوبے بھر میں منگل کو یومِ سوگ منایا جا رہا ہے اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔

سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی مل گیا ہے تاہم ریسکیو آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا۔

ان کے بقول “ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز کے اندر داخل ہوا ہو۔”

اس سے قبل سیکیورٹی حکام کا بتانا تھا کہ خود کش حملہ آور مسجد میں نماز کے دوران پہلی صف میں موجود تھا جس نے جماعت شروع ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے جب کہ چھت کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا۔

ہلاک ہونے والوں میں ضلع چارسدہ کے 15 جب کہ مردان کے پانچ باشندے بھی شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی کا حملے سے اعلانِ لاتعلقی

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ٹی ٹی پی ترجمان نے کہا ہے کہ مساجد سمیت دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں، اس حملے میں اگر ان کا کوئی رکن ملوث پایا گیا تو تنظیم کی پالیسی کے تحت سزا کا مستحق ہو گا۔

ٹی ٹی پی ترجمان کے بیان سے دس گھنٹے قبل سربکف محمد نامی ٹی ٹی پی کمانڈر نے پشاور خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمانِ کی جانب سے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا جب افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے پشاور حملے کی مذمت کی تھی اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا تھا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ

پاکستان کے بعض قانون سازوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ہمسایہ ملک کی سرزمین ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے، لہذٰا شدت پسندی کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہیے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مطابق منگل کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں سانحہ پشاور پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اراکین نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے ایک بڑا گلہ ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے لیکن ملک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ الیکشن 90 روز میں ہوں گے یا نہیں۔

سینیٹر سیف اللہ آبڑو نے کہا کہ ابھی تک ان لاشوں کی تدفین نہیں ہوئی اورسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی۔

سینیٹرطاہربزنجو نے کہا کہ اتنے محفوظ علاقے میں حملہ بظاہرسیکیورٹی اداروں کی ناکامی لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برسوں سے چلنے والی پالیسی ناکام ہوگئی ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

کامران مرتضی کا ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دو صوبے خاص طور پر ٹارگٹ ہو رہے ہیں اور ملک کی پالیسی بنانے والے اسے بدلنے پر تیار نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے 75 سالوں میں اپنی عوام کے ساتھ سچ نہیں بولا اور اب بھی اگرآپ سچ نہیں بولتے توپھر اگلے واقعے کا انتظار کریں۔

سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ لولی لنگڑی حکومت سے بہترہے کہ الیکشن کروایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں