چینی غبارہ ‘جاسوسی’ کے ایک بڑے پروگرام کا حصہ تھا، امریکا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے/ روئٹرز) امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ کئی روز تک امریکی فضائی حدود میں پرواز کرتے رہنے والا چینی غبارہ، چالیس ممالک کو نشانہ بنانے والے ایک بڑے نگرانی کے پروگرام کا حصہ تھا۔

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نو فروری جمعرات کے روز کہا کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے جس چینی غبارے کو مار گرایا، وہ ایسے غباروں کے اس بڑے بیڑے کا ایک حصہ تھا، جسے بیجنگ نے انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کے لیے پانچ براعظموں کے 40 سے زائد ممالک کو بھیجا تھا۔

تاہم بیجنگ نے ان امریکی دعووں کو مسترد کردیا ہے اور اس کا کہنا کہ ہے کہ پچھلے ہفتے امریکی فضائی حدود پر دیکھا گیا غبارہ صرف ”موسمیات” کے مقاصد کے لیے تھا۔ چین نے اسے مار گرائے جانے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار نے ایک بیان میں کہا کہ تفصیلی تصاویر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غبارہ ”واضح طور پر انٹیلیجنس نگرانی کے لیے تھا اور یہ موسمیات سے متعلق غباروں میں نصب آلات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔”

اہلکار کا مزید کہنا تھا، ”اس میں متعدد قسم کے اینٹینا تھے، جو ممکنہ طور پر مقامات کی معلومات اور مواصلات کی تفصیلات جمع کرنے جیسی صلاحیت رکھتے تھے۔” اہلکار کے مطابق امریکہ کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ غبارہ بنانے والے کا براہ راست تعلق چین کی ‘پیپلز لبریشن آرمی’ (پی ایل اے) سے ہے۔

لیکن وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ایک اہلکار نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ غبارے سے ملنے والے طبعیاتی شواہد اب تک ”انتہائی محدود” ہیں۔

‘اطلاعاتی جنگ’ پر چین کی مذمت

ادھر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے ایک بار پھر سے اس بات کا اعادہ کیا کہ بغیر پائلٹ والا وہ غبارہ موسمیات سے متعلق صرف ایک سویلین غبارہ تھا۔

ماؤ نے کہا کہ غبارے کومار گرانا ”غیر ذمہ دارانہ” عمل تھا اور بیجنگ کے خلاف اس طرح کے الزامات، ”امریکی فریق کی جانب سے چین کے خلاف اطلاعاتی جنگ کا حصہ ہو سکتے ہیں۔”

جمعرات کے روز بیجنگ کی جانب سے یہ ریمارکس امریکہ کی طرف سے تازہ معلومات جاری کرنے سے قبل ہی سامنے آئے۔ تاہم بیجنگ نے یہ نہیں بتایا کہ غبارے کا تعلق کسی سرکاری محکمے یا کمپنی سے تھا یا نہیں۔

امریکہ اور چین میں کشیدگی؟

اس تازہ واقعے سے امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ گزشتہ سنیچر کے روز اس معاملے پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے چینی ہم منصب سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تاہم چینی وزیر دفاع نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

پہلی بار غبارہ نظر آنے کے فوراً بعد امریکی وزیر دفاع انٹونی بلنکن نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیجنگ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔

تاہم جب اس حوالے امریکی صدر جو بائیڈن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس واقعے سے امریکہ اور چین کے تعلقات کو بڑا نقصان پہنچا ہے، تو انہوں نے کہا ”نہیں۔”

لندن کے کنگز کالج میں دفاعی اور خارجہ پالیسی کے ماہر مائیکل کلارک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ ایک قسم کا جھگڑا ہے۔ یہ کوئی بحران نہیں ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”بائیڈن چاہتے ہیں کہ انتظامیہ یہ ظاہر کرے یہ محض ایک طرح کا جھگڑا ہے۔ یہ گزر جائے گا۔ اور چین کے ساتھ اپنے وسیع تر تعلقات کے بارے میں سوچنے کے لیے ہمیں موقع مل گیا ہے۔ ایک بار پھر وہ نہیں چاہتے کہ بیجنگ اس پر سبقت لے جائے۔”

دوسری جانب جمعرات کے روز ہی ایک غیر معمولی اور تیز تر اقدام کے تحت امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر چینی غبارے کی مذمت کرتے ہوئے اسے امریکی خود مختاری کی ”صریحاً خلاف ورزی” قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں