بھارتی ریاست ہریانہ میں گائے کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ‘زندہ جلا دیا گیا’

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ شدت پسند ہندوؤں نے دونوں کو اغوا کیا اور پھر انہیں ‘زندہ جلا کر’ ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ اس میں گؤ رکشک شامل ہیں یا نہیں۔

بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں گزشتہ روز ایک کار سے دو مسلمان مردوں کی جلی ہوئی لاشیں بر آمد کی گئی تھیں، جس کے ایک دن بعد پولیس نے پانچ افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا ہے۔ حکام کو شبہ ہے کہ وہ گاؤ رکشک یعنی شدت پسند ہندو گروپوں سے تعلق رکھنے والے گائے کے مبینہ محافظ ہو سکتے ہیں۔

25 سالہ ناصر اور 35 سالہ جنید کی جلی ہوئی لاشیں ایک جلی ہوئی کار سے برآمد ہوئیں۔ ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ شدت پسند ہندو گروپ بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے گؤ رکشکوں نے بدھ کے روز راجستھان کے ضلع بھرت پور سے ان دونوں کو اغوا کیا تھا۔

ناصر اور جنید راجستھان کے ضلع بھرت پور کے گھاٹمیکا گاؤں کے رہنے والے تھے۔ جمعرات کے روز ان کی لاشیں ہریانہ کے بھیوانی کے لوہارو میں جلی ہوئی ایک بولیرو کار سے ملی تھیں۔

متاثرین کے لواحقین کا کیا کہنا ہے؟

متوفی کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان دونوں کو قتل کیا گیا ہے۔ اپنی پولیس شکایت میں اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ جنید اور ناصر دونوں دوست تھے جو پہلے لاپتہ ہوگئے تھے جبکہ انہیں بجرنگ دل کے مبینہ کارکنوں نے اغوا کیا تھا۔

جنید کے ایک قریبی رشتے دار اسماعیل نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ بجرنگ دل کے کارکن انہیں مارنے پیٹنے کے بعد فیروز پور جھرکہ پولیس لے گئے تاہم، ”پولیس نے انہیں (جنید اور ناصر) کو حراست میں نہیں لیا کیونکہ وہ حملوں کی وجہ سے شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے۔”

جنید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جلنے کی وجہ سے لاشیں بری طرح جھلس گئیں جس سے ان کی پہچان مشکل تھی اور گاڑی کے لائسنس نمبر کی وجہ سے ہی ان کی شناخت ہو سکی۔ جنید کے پسماندگان میں ان کی بیٹی اور اہلیہ ہیں۔

بعد میں ان کی شکایت کی بنیاد پر راجستھان کے گوپال گڑھ پولیس اسٹیشن میں انیل، شری کانت، رنکو سینی، لوکیش سنگلا اور موہت عرف مونو کے خلاف تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

پولیس کا موقف

پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرین میں سے ایک جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے کئی شکایات تھیں، تاہم اس بات کا تعین کرنے کے لیے تفتیش جاری ہے کہ آیا یہ جرم گائے کے تحفظ کا معاملہ تھا یا کچھ اور۔

بھرت پور کے انسپکٹر جنرل گورو سریواستو کا کہنا تھا، ”گاڑی سے دو نامعلوم افراد کی جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا دونوں افراد وہی ہیں جنہیں اغوا کیا گیا تھا، ہماری ٹیم اہل خانہ کے ساتھ موقع پر گئی۔ پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے کے تجزیوں کے بعد ہی ان کی حتمی شناخت کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں کو زندہ جلا دیا گیا یا گاڑی میں آگ لگنے سے وہ ہلاک ہوئے اس کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔ پولیس نے کہا کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ان افراد کی موت گائے کے محافظوں کی وجہ سے ہوئی یا کوئی اور بات تھی۔

بھارتی میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق ہندو شدت پسندوں نے 2015ء کے بعد سے اب تک ایسے متعدد واقعات میں بہت سے مسلمانوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ گائے کی بے حرمتی یا اس کا گوشت کھانے کے شبہے میں سن 2010 سے اب تک 28 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سے ایسے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

حالانکہ مودی گائے کے نام پر انسانوں کے قتل کی مذمت بھی کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود مشتعل ہجوم کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ ہندو عقیدے میں گائے کو مقدس جانور مانا جاتا ہے۔ ملک میں ایسے کئی ہندو گروپ ہیں، جو قانون سے ماورا ہو کر اپنے طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گائے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

ایسے گروپوں میں شامل افراد مختلف ٹیموں کی شکل میں اپنی ‘چھاپہ مار کارروائی‘ کرتے ہیں اور اگر ان کے مطابق کوئی شخص کسی گائے کو مبینہ طور اسمگل یا ذبح کرنے کی کوشش میں ہو، تو وہ خود ہی ماورائے عدالت”سزا “پر عمل درآمد کردیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں