مشرقی ساحلوں پر روس، جنوبی افریقہ اور چین کی مشترکہ بحری مشقیں

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی تحفظات اوریوکرین کی مذمت کے باوجود جنوبی افریقہ، روس اورچین کی مشترکہ بحری مشقیں جمعہ کو جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحل کے قریب شروع ہو رہی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دس روزہ فوجی مشقوں سے جنوبی افریقہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یوکرین پراس کے جاری حملے کا ایک سال مکمل ہونے پر ماسکو کے لیے اپنے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا مقصد پورا ہو گا۔

دوسری طرف مغربی ممالک روس کے حملے کو روکنے میں مدد کے لیے یوکرین کو اپنے ہتھیاروں کی ترسیل میں اضافہ کر رہے ہیں۔

روس کا بحری بیڑہ ’’یڈمرل گورشکوف‘‘ جواس ہفتے کیپ ٹاؤن پہنچا تھا، اس پرروس کی جنگ نوازعلامت، حرف‘‘’Z’’ والے پرچم لہرا رہے تھے۔ جنوبی افریقہ نے آج سے روسی جنگی جہازوں کے ساتھ جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ روس کے حملے کی پہلی سالگرہ کے قریب فریگیٹ پر سوارجنوبی افریقی فوجیوں کا سرعام نظر آنا ماسکو کے لیے بغاوت اورآزادی پسند نیلسن منڈیلا کے ملک کے لیے باعث شرمندگی ہوگا۔

جنوبی افریقہ میں یوکرین کی سفیرلیوبوف ابراویٹووا نے وی او اے کو بتایا کہ وہ مشقوں کی مذمت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بہت پریشان کن ہے کہ جنوبی افریقہ اس ملک کے ساتھ فوجی مشق کی میزبانی کررہا ہے جو جارح اور حملہ آورہے۔ روس اپنی فوجی طاقت ایک پرامن ملک کے خلاف استعمال کر رہا ہے، وہاں تباہی پھیلا رہا ہے اوریوکرینی قوم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

جنوبی افریقہ نے بار ہا یوکرین کے تنازعے پر اپنے غیرجانبدارانہ موقف اورروس کے ساتھ تعلقات کے اپنے حق کا دفاع کیا ہے، جو برازیل، بھارت اور چین کے ساتھ برکس تجارتی بلاک کا ساتھی رکن ہے۔

جنوبی افریقہ کی وزیرِخارجہ نیلیڈی پانڈور نے گزشتہ ماہ اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاو روف کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ پریٹوریا فریقین کے زبردستی انتخاب کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔

اپوزیشن ڈیموکریٹک الائنس کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے مشقوں کی میزبانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنی غیر جانبداری ظاہر کرنے کا اب کوئی بہانہ بھی تراش نہیں رہا ہے۔

ڈیموکریٹک الائنس کے شیڈو وزیردفاع کوبس ماریس نے کہا کہ موسی ٹو نامی مشقوں سے جنوبی افریقہ کی بحریہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بہتر ہوتا کہ یہ فنڈز کہیں اور خرچ کیے جاتے۔

ماریس نے کہا، ’’ہماری انتہائی محدود بحری صلاحیتوں، وسائل اور دیگر اعلیٰ ترجیحات کے پیش نظر، ہم مشق موسی ٹو سے، خاص طور پر ہائپر سونک میزائل کی موجودگی اورممکنہ لانچ سے بہت کم یا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘

گورشکوف ہائپرسونک زرکون میزائلوں سے لیس ہے، جسے روسی سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مشقوں کے دوران تربیتی لانچ سے فائر کیا جا سکتا ہے۔

جنوبی افریقہ کے حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ میزائل لانچ دس روزہ مشقوں کا حصہ ہو گا، جس میں چین کی بحریہ بھی شامل ہے۔

جنوبی افریقہ کے محکمہ دفاع نے کہا کہ یہ روس کے ساتھ پہلی جنگی مشق نہیں ہے اوراس سے قبل اس نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ بھی فوجی مشقوں میں حصہ لیا تھا۔

جنوبی افریقہ کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں روس کے ماہراسٹیون گرزڈ کا کہنا ہے کہ پریٹوریا دونوں اطراف کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گرزڈ نے کہا،’’جنوبی افریقہ ایک ایسا مستقبل دیکھ رہا ہے جس میں روس اورچین دونوں بہت اہم شراکت دار ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اب بھی مغربی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لا حاصل کوشش ہے، امریکہ یقینی طور پراس بات سے بالکل خوش نہیں ہوگا کہ جنوبی افریقہ ان مشقوں میں حصہ لے رہا ہے‘‘۔

مشقوں پر تبصرہ کرنے کے لیے استفسار پر، امریکی محکمہ خارجہ نے وی او اے کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ اس نے انہیں تشویش کے ساتھ نوٹ کیا جب کہ ماسکو یوکرین پر اپنا وحشیانہ اورغیرقانونی حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا، ’’ہم جنوبی افریقہ کو جمہوریت پسند ملکوں کے ساتھ فوجی تعاون کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جوانسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہماری باہمی وابستگی میں شریک ہیں۔‘‘

جنوبی افریقہ میں روسی سفارت خانے اور جنوبی افریقہ کی وزارت دفاع نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں