جنگی جرائم: بین الاقوامی فوجداری عدالت سے روسی صدر پوٹن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری

دی ہیگ (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جمعے کو کہا کہ اس نے روسی صدر ولادی میر پوٹن کو یوکرین میں مبینہ طور پر بچوں کے اغوا میں ملوث ہونےسے متعلق جنگی جرائم کے ارتکاب پر ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔

عدالت نے ایک بیان میں کہا کہ پوٹن مبینہ طور پر بچوں کو یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سے غیر قانونی طور پر ملک بدر کر کے روسی فیڈریشن بھیجنے کے جنگی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عدالت نے جمعے کو ایسے ہی الزامات کی بنا پر روسی فیڈریشن کے صدر کے دفتر میں بچوں کے حقوق سے متعلق کمشنر ، ماریا ایلیک سیونا ایل وووا بیلووا کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

عدالت کے جج پیوٹر ہوف منسکی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اگرچہ آئی سی سی کے ججوں نے وارنٹس جاری کر دیے ہیں ، تاہم اس پر عمل درآمد کا انحصار بین الاقوامی برادری پر ہوگا۔ عدالت کے پاس وارنٹس پر عمل درآمد کے لیے اپنی کوئی پولیس فورس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی سی سی قانون کی ایک عدالت کے طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ ججوں نے گرفتاری کے وارنٹس جاری کر دیے ہیں۔ عمل در آمد کا انحصار بین الاقوامی تعاون پر ہوتا ہے۔

ماسکو آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس وارنٹ پر اولین رد عمل میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخاروا نے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت ہمارے ملک کے لیے قانونی نقطہ نظر سمیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

لیکن یوکرین کے عہدے دار بہت خوش تھے ۔صدارتی مشیر میخائلو پوڈولیاک نے کہا کہ دنیا تبدیل ہو چکی ہے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ قانون کے پہیئے حرکت میں آرہے ہیں ۔اور یہ کہ بچوں کے اغوا اور دوسرے بین الاقوامی جرائم پر بین الاقوامی مجرموں کا احتساب کیا جائے گا۔

یوکرین بھی عدالت کا رکن نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے علاقے پر آئی سی سی کو دائرہ اختیار دے رکھا ہے اور آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے ایک سال قبل تحقیقات شروع کرنے کے بعد سے چار مرتبہ وہاں کا دورہ کیا ہے۔

اگرچہ روس نے عدالت کے الزامات اور وارنٹس کو مسترد کر دیا ہے دوسروں نے کہا ہے کہ عدالت کا یہ اقدام اہم اثر مرتب کرے گا۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسو سی ایٹ انٹر نیشنل جسٹس ڈائریکٹر بلقیس جراح نے کہا کہ آئی سی سی نے پوٹن کو ایک مطلوب شخص قرار دے دیا ہے اور اس استثنی کے خاتمے کے لیے اپنا پہلا قدم اٹھایا ہے جس نے ایک عرصے سے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں مجرموں کو شہ دے رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وارنٹس نے یہ واضح پیغام بھیجا ہے کہ عام شہریوں کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب ، یا برداشت کرنے کےاحکامات دینا، دی ہیگ میں جیل کی کسی کوٹھری تک لے جاسکتا ہے۔

پروفیسر ڈیوڈ کرین نے جنہوں نے لائبیریا کے صدر چارلس ٹیلر کو 20 سال قبل سیرا لیون میں جنگی جرائم کی بنا پر فرد جرم عائد کی تھی ، کہا ہے کہ دنیا بھر میں ڈکٹیٹرز اور مطلق العنان حکمرانوں پر اب توجہ مرکوز ہو رہی ہے اور یہ کہ سربراہان مملکت سمیت بین االاقوامی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب ہو گا۔

ٹیلرکو آخر کار گرفتار کیا گیا تھا اور نیدر لینڈز کی ایک خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا یا گیا تھا۔ انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا اور 50 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کو ایک تحریری تبصرے میں کرین نے کہا کہ یہ انصاف اور یوکرین کے شہریوں کے لیے ایک اہم دن ہے۔

جمعرات کو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک انکوائری میں یوکرین میں شہریوں پر روسی حملوں کا حوالہ دیا گیا جن میں مقبوضہ علاقوں میں منظم اذیت رسانی اور ہلاکتوں سمیت ، ایسے ممکنہ مسائل شامل تھے جو جنگی جرائم اور ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے ضمرے میں آتے ہیں۔

وسیع تحقیقات میں روسی سرزمین پر یوکرینی باشندوں کے خلاف جرائم کا بھی پتہ چلا، جن میں یوکرین کے جلا وطن بچے بھی شامل ہیں جنہیں ان کے خاندانوں کے ساتھ دوبار ہ ملاپ سے روکا گیا تھا ۔ یہ ایک فلٹریشن سسٹم ہے جس کا مقصد یوکرینی باشندوں کو حراست اور اذیت رسانی اور غیر انسانی حراستی حالات میں رکھنے کے لیے الگ کرنا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں