بھارت: کرناٹک میں ہندو انتہا پسندوں کے مبینہ تشدد سے مسلمان تاجر ہلاک

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ریاست کرناٹک کے ضلع رام نگر میں پانچ افراد پر مشتمل مبینہ گائے کے محافظوں (گاؤ رکشکوں) کے گروہ نے جانور لے جانے والے ایک 35 سالہ شخص کو قتل کر دیا ہے۔

اس واقعے کے خلاف مقامی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور اس کے لیے ریاستی وزیرِ داخلہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ہلاک شخص کا نام ادریس پاشا ہے اور وہ مانڈیا ضلعے کا رہائشی تھا۔

پولیس کے مطابق پاشا اور دو دیگر افراد سید ظہیر اور عرفان جمعے کو مقامی بازار سے جانور خرید کر کیرالہ اور تمل ناڈو کے بازار جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی پنیت کیرے ہالی نامی ایک مبینہ گائے محافظ نے روکی۔

پنیت ’راشٹرا رکشنا پاڈے‘ نامی ایک تنظیم چلاتے ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے کرناٹک میں حلال گوشت اور مسلمانوں سے تجارت کرنے کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ ضلع ہاسن کے باشندے پنیت کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں۔

رپورٹس کے مطابق پاشا نے بازار سے خریدے گئے جانوروں کے بارے میں کاغذات دکھائے۔ پنیت نے ان سے دو لاکھ روپے مانگے۔ پاشا کے روپے دینے سے انکار کرنے پر ان پر حملہ کیا گیا اور ان سے پاکستان جانے کو کہا گیا۔ بعدازاں ایک سڑک کے کنارے ان کی لاش ملی۔

پاشا کے اہل خانہ کے مطابق تشدد کی وجہ سے پاشا کو سنگین چوٹیں آئیں جن کی تاب نہ لا تے ہوئے ان کی موت ہوئی۔

پولیس نے پاشا کے اہلِ خانہ کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پنیت کے خلاف دفعہ 302 اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ ملزم پنیت فرار ہیں۔

ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس رہنما سیدھا رمیا نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مذہب کے تحفظ کے نام پر غنڈہ سیاست قرار دیا ہے۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’اس واقعے کے لیے نا اہل وزیرِ داخلہ جنانیندر آراگیا براہِ راست ذمہ دار ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعہ گائے کے تحفظ کے نام پر غنڈہ گردی نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات سے قبل ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر خراب کرنے اور عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔

یاد رہے کہ کرناٹک میں 10 مئی کو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

اس معاملے پر کرناٹک حکومت یا وزیرِ داخلہ کی جانب سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق بی جے پی رہنماؤں نے اس معاملے پر ردِ عمل دینے سے انکار کر دیا۔

مبصرین کے مطابق یہ اور ایسے واقعات از خود نہیں ہوتے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کرائے جاتے ہیں۔ یہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی معاملات ہیں اور جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار اور صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو ہندو اکثریت پسندی کی سیاست سے فائدہ ہوتا ہے اس لیے وہ ایسے واقعات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2014 کے بعد سے ہی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اس سال نو ریاستوں میں اسمبلیوں کے اور اگلے سال پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب تک کی جو مثالیں ہیں ان کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ انتخابات تک یہ سلسلہ کم ہوگا۔

ان کے مطابق 2015 میں اترپردیش کے دادری میں بیف رکھنے کے نام پر اخلاق نامی ایک شخص کو زد و کوب کرکے ہلاک کرنے کا پہلا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہوا ہی نہیں بلکہ اس میں تیزی ہی دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) او ربی جے پی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے کچھ بیانات آجاتے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ انہیں نہیں لگتا کہ آگے بھی اقلیتوں کو منظم انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ رکے گا یا حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے ایسے واقعات کو روکنے کی کوئی منظم کوشش کی جائے گی۔

سابق مرکزی وزیر اور رکن پارلیمان کپل سبل نے جمعرات کو ہندوؤں کے مذہبی تہوار رام نومی کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے تشدد کے تناظر میں یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ 2024 کے انتخابات تک اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی و‘ی سے بات کرتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں الزام لگایا کہ پارلیمانی انتخابات کے قریب آنے کے پیشِ نظر بی جے پی نے فرقہ وارانہ تشدد کا منصوبہ بنایا ہے۔ مغربی بنگال، گجرات اور مہاراشٹرا میں تشدد کے جو واقعات پیش آئے ہیں وہ محض ٹریلر ہے۔

واضح رہے کہ جمعرات کو رام نومی کے جلوس کے موقع پر مغربی بنگال، گجرات اور بہار میں پر تشدد واقعات ہوئے ہیں۔ بہار میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

بی جے پی نے اتوار کی شام کو الزام عائد کیا کہ مغربی بنگال کے ہوگلی ضلع کے رِشرا میں ایک مسجد کے باہر رام نومی کے جلوس پر حملہ کیا گیا جس میں مقامی رکن اسمبلی زخمی ہوئے۔ ا س کے بعد وہاں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

ادھر بہارمیں نالندہ ضلع کے بہار شریف میں ایک 110 سال پرانے مدرسے کو نذرِ آتش کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

مدرسے کے منتظم محمد شہاب الدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو رام نومی کے جلوس کے موقع پر مدرسہ عزیزیہ اور اس کی لائبریری کو نذر آتش کر دیا گیا۔

ان کے مطابق لائبریری میں 4500 کتابیں تھیں سب جل کر خاک ہو گئیں۔

مدرسہ کے محافظ موہن بہادر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہزار افراد پر مشتمل زعفرانی کپڑوں میں ملبوس افراد نے مدرسے پر حملہ کیا۔ ان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا مگر وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب رہے۔

سابق رکن پارلیمان اور ’انڈین مسلم فار سول رائٹس‘ کے صدر محمد ادیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ بہار شریف میں چن چن کر مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔

دریں اثنا ہریانہ کے گوڑ گاؤں میں اتوار کو ’وشوا ہندو پریشد‘ کی جانب سے بلڈوزر، وین اور ایس یو وی گاڑیوں سے ایک تین کلومیٹر لمبی بھگوا یاترا نکالی گئی جس میں کھلے عام ہتھیار لہرائے گئے۔

پولیس کے مطابق ریلی کی اجازت نہیں تھی۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

اسی دوران دہلی سے متصل نوئڈا کی بعض گیٹ بند کالونیوں میں مسلمانوں کو نماز تراویح ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ مقامی ہندوؤں کے اعتراض پر پولیس نے یہ کہہ کر نماز پرپابندی عائد کی کہ وہاں دفعہ 144 نافذ ہے۔

نیلانجن مکھوپادھیائے اس سلسلے میں نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان واقعات میں مقامی ہندوؤں کا یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ان کالونیوں میں مسلمان الگ تھلگ رہ سکتے ہیں البتہ وہ کہیں اجتماعی طور پر اکٹھا نہیں ہو سکتے۔

بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی معاملات ہیں اور انہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حکومت سیاسی مفاد کی وجہ سے ایسے واقعات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی۔ دوسری جانب حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں