گجرات فسادات: بھارتی عدالت نے 11 مسلمانوں کی ہلاکت میں ملوث 67 انتہا پسندوں کو بری کردیا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) احمد آباد کی ایک خصوصی عدالت نے 2002 میں احمد آباد کے علاقے نرودا گام میں 11 مسلمانوں کے قتل کے تمام 67 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ ملزمان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق رکن اسمبلی مایا کودنانی، بجرنگ کے دل لیڈر بابو بجرنگی اور وشو ہندو پریشد کے رہنما جے دیپ پٹیل بھی شامل ہیں۔

جسٹس شبھادا بخشی نے پانچ اپریل کو سماعت مکمل کر لی تھی۔ اس معاملے میں 68 ملزموں کے خلاف فردِ جرم داخل کی گئی تھی۔ ایک ملزم کو پہلے ہی بری کیا جا چکا تھا۔

اس سے قبل ایک ٹرائل کورٹ نے مایا کودنانی اور بابو بجرنگی کو نرودا پاٹیا قتل عام کیس میں مجرم قرار دیا تھا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ کودنانی ریاست کی نریندر مودی حکومت میں وزیر بھی رہی ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ نے 2018 میں مایا کودنانی کو بری کر دیا اور بابو بجرنگی کی سزا معطل کر دی تھی۔

واضح رہے کہ 27 فروری 2002 کو گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آتش زنی ہوئی تھی جس میں 67 ہندو یاتری جو کہ ایودھیا سے آرہے تھے، زندہ جل گئے تھے۔ اس کے بعد پورے گجرات میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

اگلے روز یعنی 28 فروری کو احمد آباد کے نرودا گام علاقے کے مسلم محلے کُمبھار واس میں ایک مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کے مکانوں کو نذرِ آتش کر دیا اور 11 مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ نرودا گام کیس نو بڑے کیسز میں سے ایک تھا۔

حکومت نے گجرات فسادات کی تحقیقات کے لیے جسٹس ناناوتی کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ گواہوں کے بیان کے مطابق نروداگام میں مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک بھی پولیس اہلکا رموجود نہیں تھا اور وہ پوری طرح شرپسندوں کے رحم و کرم پر تھے، پولیس شام کو پہنچی تھی۔

لیکن متعدد پولیس اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نرودا گام میں اس لیے نہیں پہنچ سکی کہ وہ ایک اور متاثرہ علاقے نرودا پاٹیا میں اس سے بھی سنگین صورتِ حال سے نمٹنے میں مصروف تھی۔ دونوں مقامات پر بیک وقت تشدد ہوا تھا۔

مارچ 2017 میں مایا کودنانی نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس وقت کے بی جے پی صدر امت شاہ سمیت مزید 14 افراد کو ان کے دفاع میں گواہی دینے کے لیے طلب کرے۔

امت شاہ نے 18 ستمبر 2017 کو خصوصی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے واردات کے روز کودنانی کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ریاستی اسمبلی میں اور گیارہ سوا گیارہ بجے سولہ سول اسپتال میں دیکھا تھا۔

متاثرین کے وکیل شمشاد پٹھان نے اس فیصلے کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ صرف متاثرین کے خلاف نہیں ہے بلکہ خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے بھی خلاف ہے جس نے اس معاملے کی تحقیقات کرکے 68 افراد کو ملزم بنایا تھا۔

ان کے مطابق ہمارے پاس تمام ملزموں کے خلاف پختہ ثبوت تھے جن میں فرانزک لیبارٹری جانچ رپورٹ اور ملزموں اور گواہوں کے سیل فونز کی لوکیشن بھی شامل تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاست دانوں کی جانب سے اس فیصلے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انصا ف کے منافی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور سپریم کورٹ کے وکیل رویندر کمار ایڈووکیٹ نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ گجرات میں قانون کی حکمرانی کتنی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ” اگر حکومت اور جج حضرات یہ طے کر لیں کہ انہیں کسی کو سزا نہیں دینی ہے تو پھر کسی کا جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اسے بری کر دیا جائے گا۔”

بقول ان کے یہ حکومت مجرمو ں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے بلقیس بانو کیس کی مثال دی اور کہا کہ جن کو عمر قید کی سزا ملی تھی حکومت نے ان کو شریف اور باکردار بتا کر معاف کر دیا اور جیل سے رہا کر دیا۔

انہوں نے ایس آئی ٹی کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا۔ بقول ان کے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر راگھون اس وقت قبرص میں بھارت کے سفیر ہیں۔ جب کہ دوسرے رکن کرنل سنگھ تھے جنھیں بعد میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کا چیف مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی ٹی کے ارکان نے سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکا جس کا انہیں انعام ملا۔

سابق مرکزی وزیر اور رکن پارلیمان کپل سبل نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی کا جشن منائیں یا اظہار مایوسی کریں۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ نرودا گام میں 11 شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں ایک 12 سال کی لڑکی بھی تھی۔ 21 سال کے بعد تمام 67 ملزموں کو بری کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں قانون کی حکمرانی کا جشن منانا چاہیے یا اس کے دم توڑ دینے پر افسوس کرنا چاہیے۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ استغاثہ کی ناکامی نہیں ہے کہ وہ قصورواروں کو سزا نہیں دلا سکا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اس کیس میں پیروی کرنے والی سرکاری ایجنسی ملزموں کو رہا کرانا چاہتی تھی یا سزا دلانا۔ انہیں یقین ہے کہ استغاثہ کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جائے گی۔

ان کے مطابق مجھے حیرت ہے کہ عدالتیں ناانصافی کے اس عمل کو جو کہ یکے بعد دیگرے مقدمات میں سامنے آرہی ہے، صرف دیکھتی رہیں گی۔

رویند رکمار بھی عدلیہ کی اس روش پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق “اب تو عدالتیں حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے سناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جج حضرات کو سبکدوشی کے بعد کوئی اچھا عہدہ مل جاتا ہے۔”

یاد رہے کہ اس سے قبل گجرات حکومت نے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے تمام 11 مجرموں کو قبل از وقت معافی دے کر جیل سے رہا کر دیا تھا جس پر انسانی حقوق کے اداروں اور سیاست دانوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

بلقیس بانو نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس پر کورٹ نے گجرات حکومت سے ان تمام مجرموں کی فائل طلب کی ہے۔ اس نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔

اس سے قبل ایک عدالت نے اترپردیش میں میرٹھ کے ملیانہ میں 1987 میں 63 مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے ایک معاملے میں تمام 39 ملزموں کو ثبوتوں کے فقدان کی بنیاد پر بری کر دیا تھا جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاست دانوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

نرودا گام کے متاثرین نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کا قتل قرار دیا اور فیصلے کے دن کو سیاہ دن بتایا ہے۔

معاملے کے ایک گواہ 50 سالہ امتیاز احمد حسین قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 17 ملزموں کی شناخت کی تھی جن میں وشو ہندو پریشد کے لیڈر جے دیپ پٹیل بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق “میں نے دیکھا تھا کہ وہ بھیڑ کو مسجد اور مکانوں کو نذر آتش کرنے کے لیے مشتعل کر رہے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے شرپسندوں نے ایک خاندان کے پانچ لوگوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ میں نے ان تمام لوگوں کی شناخت کی تھی۔”

انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ 21 سال گزر جانے کے باوجود ہمیں عدالت سے انصاف کی امید ہے۔ ان کے مطابق 2002 میں 11 لوگوں کو قتل کیا گیا تھا اور اب 2023 میں انصاف کا قتل کر دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں