”بھگوان” کے نام پر بھارتی لڑکیاں جنسی غلامی کا شکار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بھگوان کی غلام کوب دراصل دیو داسی کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ایسی لڑکیاں پوجاری یا مندر کی دیکھ بھال کرنے والے اعلیٰ مذہبی رہنماؤں کی ہوس مٹانے کا کام کرتی ہیں۔ بھگوان کے نام پر لڑکیوں کا استحصال کوئی نئی بات نہیں۔

ہندی زبان میں ‘دیو’ کا مطلب ہے بھگوان جبکہ ‘داسی’ خاتون غلام کے لیے مستعمل ہے۔ اس ترکیب یعنی دیو داسی کا مطلب ہوا، بھگوان کی غلام۔

بھارت میں یہ ایک قدیمی روایت ہے کہ کچھ بچیوں کو دیو داسی بنا کر مندر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد بھگوان کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس لڑکی کو نیک عمل کرنے والی ایک پاکباز خاتون بنانا ہوتا ہے، ایک ایسی خاتون جو دنیا کی تمام آلائشوں سے پاک ہو۔

لیکن ایسے زیادہ تر کیسوں میں دیو داسیاں پوجاری یا مندر سے وابستہ دیگر مذہبی یا منتظم افراد کے جنسی استحصال کا شکار بن جاتی ہیں۔ جنسی غلامی کی آگ میں جھونکی جانے والی ایسی زیادہ تر بچیاں ہندوؤں کے کاسٹ سسٹم کے تحت ‘نچلی ذات’ سے تعلق رکھنے والی ہی ہوتی ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال جنوبی ریاست کرناٹک کی ننگاوا کانال بھی ہیں۔ انتہائی غربت میں پیدا ہونے والی کانال نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جس نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ دس بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹی تھیں۔

کانال نے دیکھا کہ ان کی بڑی بہن نے گھر والوں کی کفالت کی خاطر کیا کیا جتن کیے اور آخری کار وہ اس مقصد کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہو گئیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کانال نے بتایا، “ہماری حالت کافی خراب تھی۔ ہمارے والدین کو کام بھی نہیں ملتا تھا اور ہم راتوں کو بھوکے ہی سو جاتے تھے۔”

کانال کی عمر سات برس تھی، جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی مدد کریں گی۔ اگرچہ وہ باقاعدہ طور پر جسم فروشی کی طرف نہیں گئیں لیکن انہیں علم نہیں تھا کہ دیو داسی بننا بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔

جنسی غلامی کی زندگی

بلوغت سے قبل ہی کوئی لڑکی دیو داسی بن سکتی ہے۔ ایک طرح سے اس کی شادی کسی بھگوان سے کر دی جاتی ہے۔ وہ پھر مندر کے لیے مختص ہو جاتی ہے اور کسی مرد سے شادی نہیں کرتی۔

ہندو اساطیر میں دیوداسی کا تذکرہ صدیوں پرانی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ کرناٹک کے تاریخی شہر سوآن داتی میں یلما دیوی کا ایک مندر اس فرسودہ روایت کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، جہاں آج بھی معصوم بچیاں دیو داسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یلما دراصل دیو داسیوں کی بھگوان مانی جاتی ہیں۔

ہندو مذہب میں دیو داسی کو بھگوان اور عقیدت مندوں کے مابین ایک پل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھگوان کی غلام یہ خواتین اپنے رقص اور میوزک سے بھگوانوں کو خوش کرتی ہیں۔ مذہبی ایونٹس میں ان کی یہ پرفارمنس انہیں مردوں کی نگاہوں کا مرکز بھی بنا دیتی ہے۔

یوں نہ صرف پوجاری بلکہ نام نہاد ‘اونچی ذات’ کے لوگ، زمین دار اور امیر مرد بھی ان دیو داسیوں کو سیکس کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ انیسویں صدی تک دیو داسی کو بھارتی معاشرے میں ایک اونچا رتبہ حاصل تھا۔

خواتین کے حقوق کی علمبردار سمرتی پرمیچندر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بے شک ایک وقت تھا جب دیو داسیوں کو معاشرتی سطح پر ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا، ”اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والے مرد امیر تھے اور اعلیٰ رتبہ رکھتے تھے۔ تاہم جب برٹش سرکار نے اس پریکٹیس کو ممنوعہ قرار دیا تو دیو داسیاں بھی اپنا اثرورسوخ کھونے لگیں۔”

دلت کمیونٹی کو زیادہ خطرہ لاحق

سن 2015 میں ایک بھارتی ادارے کی طرف سے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کو جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں دیو داسی بنائی جانے والی 80 فیصد لڑکیوں کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہی ہوتا ہے۔

حقوق نسواں کی کارکن عائشہ رامیش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہندو ذات پات کے فرسودہ نظام میں ‘نچلی ذات’ یعنی دلت کمیونٹی کی لڑکیاں زیادہ تر غربت کی وجہ سے جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دیو داسی بنائی جانے والی زیادہ تر لڑکیاں اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔

آج کے جدید دور میں بھی بھارت میں کرناٹک کے علاوہ مہاراشٹر، اندھراپردیش اور تامل ناڈو میں دیو داسی بنانے کا قدیمی رواج ابھی تک برقرار ہے۔

اگرچہ بھارت میں قانون سازی کے تحت اس پرانے رواج کو ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے تاہم یہ پریکٹس اس کے باوجود جاری ہے۔ ناقدین کے مطابق اگرچہ قانون سازی کی گئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے قواعد و ضوابط ابھی تک وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔

بھارتی ریاست کرناٹک میں دیو داسیوں کی تعداد جاننے کی خاطر سن 2008 میں آخری مرتبہ سروے کیا گیا تھا، جس کے نتائج کے مطابق اس ریاست میں چھالیس ہزار سے زائد دیو داسیوں کا اندارج کیا گیا تھا۔

ویمن رائٹس ایکٹیوسٹ سمرتی پرمیچندر کا کہنا ہے کہ اس سروے میں ہزاروں دیو داسیوں کا اندارج نہیں کیا گیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ان خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ماہاندا کانال بھی ایک ایسی ہی دیو داسی ہیں، جن کا نام اس حکومتی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

پرمیچندر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ بھارت میں دیو داسیوں کی اصل تعداد جاننے کے لیے ایک نیا اور جامع سروے کیا جانا چاہیے۔ انہوں زور دیا کہ اگر حکومت مؤثر اقدام نہیں کرے گی تو بھارت میں بھگوان کے نام پر معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کبھی نہیں تھمے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں