بھارتی رہاست منی پور میں تشدد جاری، مرکزی وزیر رنجن سنگھ کے گھر پر حملہ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارتی رہاست منی پور میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ریزرویشن کے تنازعے پر اکثریتی میئتی ہندووں اور ناگا اور کوکی کے درمیان تین مئی کو تصادم کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مشتعل ہجوم نے گزشتہ رات امور خارجہ کے وزیر مملکت کے گھر پر بھی حملہ کر دیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت نیز مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی اپیلوں کے باوجو منی پور میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوجی اور نیم فوجی دستے بھی تعینات ہیں تاہم تین مئی کو شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں اب تک تقریباً 80 افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

اب تک کم از کم 1700مکانات کو نذر آتش کردیا گیا ہے یا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ کئی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ سکیورٹی فورسز تعینات ہیں لیکن تشدد کے واقعات کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سو اکیس گرجا گھروں کو بھی نذرآتش کردیا گیا ہے تاہم ایک غیر سرکاری تنظیم الائنس ڈیفینڈنگ فریڈم (اے ڈی ایف) نے 11مئی تک 277 گرجا گھروں کو تباہ کردیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔

وزیر مملکت برائے امورخارجہ کے گھر پر حملہ

ایک مشتعل ہجوم نے جمعرات کی رات وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور تعلیم آر کے رنجن سنگھ کے گھر پر حملہ کردیا۔ حملے کے وقت وزیر اپنے دوسرے مکان میں تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولیاں چلائیں اور کسی کی ہلاکت کی اطلاع نہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب تشدد کی اس لہر کے دوران کسی مرکزی وزیر کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے چند روز قبل ہی تعمیرات عامہ کے ریاستی وزیر کونتھو جام گووند داس کے گھر پر بھی اسی طرح کا حملہ ہوا تھا۔ تاہم وہ بھی حملے کے وقت اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت شورش زدہ ریاست میں مقامی عوام کو ایک دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے ‘انتہاپسندوں‘سے بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی۔

یہ آگ کیوں بھڑکی؟

میانمار کی سرحد سے ملحق ریاست منی پور میں یوں تو غیر قبائلی اکثریتی میتئی اور قبائلیوں کے درمیان ایک عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن تین مئی کو ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

ریاست میں میتئی فرقے کی آبادی کا تناسب تقریباً 53 فیصد ہے۔ وہ ایک عرصے سے خود کو ایک قبیلے کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ عدالت نے انہیں یہ آئینی درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب وہ ریاست کے پہاڑی علاقوں میں بھی زمینیں خرید سکیں گے۔ اب تک انہیں پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔

لیکن قبائلی تنظیموں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد میتئی فرقہ ان کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرلے گا۔

ریاست میں قبائلیوں کی آبادی 40 فیصد کے قریب ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ میتئی آبادی کو قبیلے کا درجہ ملنے کے بعد وہ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے فائدے سے محروم ہو جائیں گے۔

قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ میتئی فرقہ مالی لحاظ سے نسبتاً خوشحال ہے اور انہیں مزید مراعات دینا دیگر قبائلیوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ کی اپیل

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوگوں سے امن وامن قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

ریاست میں تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد جمعرات 25 مئی کو پہلی مرتبہ اس معاملے پر انہوں نے شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا، “منی پور میں تصادم کا سلسلہ عدالت کے ایک فیصلے کی وجہ سے شروع ہوا ہے۔ میں فریقین سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔میں خود بھی منی پور جاؤں گا اور وہا ں تین روز تک قیام کروں گا اور امن قائم کرنے کے سلسلے میں لوگوں سے بات کروں گا۔”

اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی حکومت پر ریاست میں امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنا گھر جلتا ہوا چھوڑ کر دوسرے ملکوں کے دورے کرنے میں مصروف ہے۔

اپوزیشن کاالزام ہے کہ حکومت کی نااہلی کے سبب ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ انہیں جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ خیال رہے کہ مرکز کی طرح منی پور میں بھی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں