سنگار پور میں دنیا کی 12 بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا خفیہ اجلاس

سنگاپور سٹی(ڈیلی اردو) سنگاپور میں امریکا، بھارت اور چین سمیت دنیا کی 12 بڑی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کا اہم مگر خفیہ اجلاس ہوا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس سے پہلے یہ اجلاس کبھی رپورٹ نہیں ہوا۔ تاہم سنگاپور کی جانب سے گزشتہ چند برسوں سے شنگریلا ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ کے موقع پر پوری رازداری کے ساتھ نامعلوم مقام پر خفیہ اداروں کے سرابراہان کااجلاس بھی بلایا جاتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکا کی نمائندگی نیشنل انٹیلیجنس الائنس کے ڈائریکٹر اورل ہینز اور بھارت کے سمانت گوئل نے ’را‘ کی نمائندگی کی جبکہ چین کے خفیہ ادارے کا نمائندہ بھی اجلاس میں شریک رہا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ’عالمی شیڈو ایجنڈا‘ کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ یہ کوئی کاروباری نوعیت کا اجلاس نہیں بلکہ سنجیدہ معاملات کو گہرائی سے سمجھنے کیلئے بلایا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں کے درمیان ان کہے اور ان دیکھے ضابطے موجود ہوتے ہیں، جب روایتی سفارتکاری مشکل ہو جاتی ہے تب وہ ان ضابطوں کی پاسداری کرتے ہیں اور یہ بات شدید تناؤ کے وقت میں انتہائی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق سنگاپور کے محکمہ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شنگریلا ڈائیلاگ کے کے سائیڈ لائن پر خفیہ اداروں کے حکام کو بھی اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کا موقع مل جاتا ہے اور ہم ایسے باہمی اجلاس میں مددگار کا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے اجلاس بین الاقوامی سطح پر فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سنگاپور میں ہونے والے 12 ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کے اجلاس میں روس کے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی جبکہ روسی ڈپٹی وزیر دفاع ولودومیر ہاوریلوف کا کہنا تھا کہ وہ شنگریلا ڈائیلاگ میں موجود تھے تاہم اس اجلاس میں شامل نہیں تھے۔

دوسری جانب سنگاپور میں امریکی سفارت خانے نے خفیہ ایجنسیوں کے اجلاس میں امریکی نمائندے کی شرکت سے لاعلمی ظاہر کردی جبکہ چین اور بھارت کی جانب سے اس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یاد رہے کہ سنگاپور میں شنگریلا سکیورٹی سمٹ میں 49 ممالک کے 600 وفود نے شرکت کی تھی، اجلاس میں آسٹریلین وزیر اعظم، امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن اور چینی وزیر دفاع سمیت ان کے برطانوی ہم منصب نے بھی خطاب کیا جبکہ جاپان، کینیڈا، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا کے نمائندگان نے بھی اظہار خیال کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں