بھارتی ریاست منی پور میں خاتون وزیر کا گھر نذر آتش، فسادات میں 9 افراد ہلاک

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ریاست منی پور میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے اور تازہ ترین واقعے میں ریاست کے اقلیتی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون وزیر نیمسا کیپگن کا گھر نذر آتش کر دیا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مشتعل افراد نے ریاستی کابینہ کی رکن کی مغربی امپھال میں واقع سرکاری رہائش گاہ کو نشانہ بنایا اور اس میں آگ لگائی جس سے گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

نیمسا کیپگن شورش کی شکار ریاست کی کابینہ کی واحد خاتون رکن ہیں اور ان کا تعلق کوکی قبیلےسے ہے۔مشتعل افراد نے جس وقت ان کے گھر کو آگ لگائی اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔

فائر بریگیڈ نے کئی گھنٹوں بعد آگ پر قابو پایا اور آگ کو قریب واقع دیگر عمارتوں تک پہنچنے سے روکا۔کسی بھی گروپ نے آگ لگانے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

نیمسا کیپگن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے اور وہ ریاستی اسمبلی کے ان 10کوکی ارکان میں شامل ہیں جو کوکی قبیلے کے لیے الگ انتظامیہ کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

وہ گزشتہ برس ریاستی الیکشن میں اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے اکثریت حاصل کی تھی اور ریاست میں اس کی اتحادی حکومت ہے۔

دوسری جانب ریاست کے دوسرے علاقوں میں بھی پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کانگپوکپی میں ایک اور واقعے میں نو افراد ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی افراد فائرنگ کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہلاک اور زخمی افراد کا تعلق کس قبیلے سے تھا۔

ضلع کانگپوکپی کے کئی دیہات میں لوگوں کے گھر بھی نذر آتش کیے گئے ہیں۔

ریاست کے مختلف علاقوں میں فورسز کا سرچ آپریشن بھی جاری ہے جس میں کئی مقامات سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

منی پور میں نسلی فسادات ریاست کی اکثریتی آبادی میتی اور پہاڑوں پر آباد قبیلے کوکی کے درمیان ہو رہے ہیں۔

بھارت کی شمال مشرق کی دور دراز ریاستیں، جو بنگلہ دیش، چین اور میانمار کے ساتھ واقع ہیں، طویل عرصے سے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تناؤ کا مرکز رہی ہیں۔

حالیہ واقعات میں کوکی اور میتی کمیونیٹیز ایک دوسرے پر حملے کر رہی ہیں۔ اور دونوں جانب اموات ہو رہی ہیں، مرنے والوں میں اکثریت کوکی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے ۔

پر تشدد واقعات میں کئی گاؤں جلائے جا چکے ہیں۔دونوں نسلی گروہ حملوں اور پر تشدد واقعات کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔

ریاست منی پور کے 16 میں سے11 اضلاع میں مسلسل کرفیو نافذ ہے اور گزشتہ کئی روز سے علاقے میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے لیکن اس کے باوجود پر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

پر تشدد واقعات سے متاثر علاقوں کےرہائشیوں کو سیکیورٹی فورسز کی بنائی گئی پناہ گاہوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جب کہ ان کیمپوں میں متاثرہ افراد کی آمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مئی کے اوائل میں منی پور میں شروع ہونے والے پر تشدد واقعات سے ریاست کے دارالحکومت امپھال سمیت پوری ریاست متاثر ہوئی ہے۔

یہ فسادات ایسے وقت میں شروع ہوئے تھے جب یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ میتی کمیونٹی کے افراد کو سرکاری ملازمتوں سمیت دیگر مراعات میں خصوصی کوٹا دیا جا سکتا ہے جس پر کوکی قبیلے کے افراد نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔

میتی کمیونٹی منی پور ریاست کی کل آبادی کا 53 فی صد ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انہیں میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکینِ وطن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔

کوکی قبائل کو طویل عرصے سے یہ خدشہ ہےکہ میتی برادری کو ان علاقوں میں بھی زمینیں حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو فی الحال کوکی قبیلے سمیت دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائل کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔

بھارت کی بی جے پی کی مرکزی حکومت نے بھی دونوں قبائل میں امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تھی اور مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بھی ریاست کا دورہ کیا تھا تاہم یہ اقدامات قیامِ امن میں معاون ثابت نہیں ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں