اویغور مسلمانوں سے متعلق پالیسی چین کا اندرونی معاملہ ہے، فلسطینی رہنما محمود عباس

بیجنگ (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) فلسطینی رہنما محمود عباس نے جمعہ کو چین کا چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے، جس کا مقصد اقتصادی امداد کا حصول اور سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں مسلم اقلیتوں کے خلاف بیجنگ کی پالیسیوں کی حمایت کا اظہار کرنا تھا۔

اپنے چار روزہ دورے کے دوران عباس نے چینی صدر اور حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں بیجنگ کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں کی توثیق کی گئی اور انسانی حقوق کے مغربی تصورات کو مسترد کیا گیا۔

بیان میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے حوالے سے چین کی پالیسی کا، ‘انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا مقصد انتہا پسندی کو ختم کرنا اور دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی مخالفت کرنا ہے۔”

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، فلسطین، سنکیانگ کے مسئلے کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لئے استعمال کرنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

چین پر الزام ہے کہ وہ اویغور مسلم آبادی کا قتل عام کر رہا ہے اور ان سے جبری مشقت لیتا ہے۔ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

چین نے سنکیانگ کے مسلم اقلیت سے مبینہ ناروا سلوک پر بیرونی دنیا کی تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور مہم چلا رکھی ہے، اور ، عرب ریاستوں نے مسلمانوں کے ساتھ بیجنگ کے سلوک پر کبھی کھل کر تشویش کا اظہار نہیں کیا۔

چین کا کہنا ہے کہ انتہائی حفاظت والے مراکز کے وسیع پیمانے پر قائم کمپلیکس کا مقصد حب الوطنی کو ابھارنا، انٹرنیٹ پر پھیلی بنیاد پرستی کو ختم کرنا اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنا تھا – اور اب اسے بند کر دیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بہت سے مراکز کو جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔چین میں ویغور مسلمان آبادی کا دو فیصد ہیں۔

سنکیانگ میں اویغور

سنہ 2017 سے چینی حکومت نے سنکیانگ میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اویغور مسلمانوں پر مبینہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چین پر الزام ہے کہ اُس نے نسل کشی، ریپ، نس بندی اور جبری مزدوری جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور دس لاکھ سے زائد افراد کو ‘تعلیمِ نو’ کے مراکز میں قید کیا ہے۔

چین اپنے صوبے سنکیانگ میں بدامنی کے لیے علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

چین سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کے وجود سے بھی انکار کرتا ہے لیکن یہ ضرور تسلیم کرتا ہے کہ وہاں ‘پیشہ ورانہ تربیت’ دی جاتی ہے۔

اویغور کون ہیں؟

سنکیانگ چین کے انتہائی مغرب میں واقع رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اِس کی سرحدیں پاکستان، انڈیا، افغانستان اور منگولیا سمیت کئی ممالک سے ملتی ہیں۔ یہاں کی دو کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی کا تقریباً نصف اویغور افراد پر مشتمل ہے۔

اویغور قبیلے کے لوگ ترکی النسل مسلمان ہیں جو خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں۔ اویغوروں کا دعوی ہے کہ اُن کا کلچر، رسم و رواج اور رہن سہن چینیوں سے بالکل مختلف ہے۔

آج پاکستان کے علاوہ اویغور افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستوں، ترکی، امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں