پاکستان میں معاشی کمیٹیوں میں فوجی افسران کی شمولیت پر تنقید

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، جس میں فوجی افسران کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس حکومتی اقدام کی تعریف بھی ہورہی ہے جب کہ کچھ ماہرین اس پر تنقید بھی کررہے ہیں۔

تعریف کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس سے نوکر شاہی کی طرف سے معاشی فیصلوں میں بلاجواز تاخیرکی حوصلہ شکنی ہوگی جب کہ ناقدین اس فیصلے کو سیاسی قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ کل وزیر اعظم شہباز شریف نے معیشت کی بحالی کے لیے ایک اپیکس کمیٹی بنائی ہے، جسے اسپشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کمیٹی کا نام دیا ہے۔ حالانکہ حکومت نے اس حوالے سے وضاحت نہیں کی کہ اس کمیٹی میں فوج کا کیا کردار ہوگا لیکن انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کو ایک وفاقی وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ معیشت کا یہ منصوبہ سی پیک سے بھی بڑا ہے۔ اخبار کو حکومتی ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے میں فوج کا کرداد مینیجمنٹ اور کوآرڈینیشن کا ہوگا۔

فوجی افسران کی شمولیت سیاسی ہے

سوشل میڈیا پر حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کا بھی بہت چرچا ہو رہا ہے جس میں مختلف کمیٹیوں میں فوجی افسران کے عہدے بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی افسران کی تربیت ایسی نہیں کہ وہ معیشت جیسے پیچیدہ معاملات کو سمجھ سکیں اور ایسے معاملات میں ان کی دخل اندازی بالکل نامناسب ہے۔ پاکستانی فوج اور عسکری معیشت پر گہری نظر رکھنے والی معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے حکومت کا یہ اقدام اپنی نوعیت میں سیاسی لگتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میرے خیال سے حکومت یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ان کے ساتھ ہیں۔ فوجی افسران کو اس طرح ایسی کمیٹیوں میں شامل کرنا، جن کا کام معاشی امور کے حوالے سے ہے، کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ فوجی افسران کو معیشت کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ فوجی افسران کی قابلیت اس حوالے سے کیا ہے؟

سخت معاشی فیصلے اور فوج

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی مشکل معاشی فیصلہ ہوتا ہے، تو کئی حلقوں کی طرف سے اس کی بھرپور مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کبھی بھی کوئی حکومت نجکاری کا کوئی منصوبہ لے کر آتی ہے، تو ٹریڈ یونینز کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب بھی حکومت نے تاجروں کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی، تو اس کی بھی تاجر برادری نے بھرپور مخالفت کی۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کے حکومت سخت معاشی فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے طاقت کی ضرورت پڑے۔ ”اور پھر وہاں فوج سے مدد لی جائے۔‘‘

ایکسپورٹ اور مارکیٹنگ اسٹریٹیجی

اس معاشی بحالی کے پروگرام میں پیداواراور خصوصاً دفاعی پیداوار اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کے منصوبوں کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے۔ تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ چین اور دوسرے ممالک پہلے ہی افریقہ اور دوسرے علاقوں میں ہتھیار بیچ رہے ہیں۔ ” پاکستان پہلے ہی چھوٹے اور لائٹ ہتھیار بیچ رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزید اگر ہتھیار بنا بھی دیے جائیں، تو ان کو مسابقتی مارکیٹ میں کیسے بیچا جائے گا۔ اس کے لیے آپ کو مارکیٹنگ اسٹریٹیجی چاہیے، جو یقیناً فوجیوں کے پاس نہیں ہے۔‘‘

معیشت میں مداخلت نا مناسب

کچھ معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح فوجیوں کو معاشی امور سے متعلق کمیٹیوں میں شامل کرنا سویلین معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے اور یہ کہفوج کا یہ آئینی کردار نہیں کہ وہ اس طرح کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ یہ آئینی طور پر عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسے معاملات میں آئین سے انحراف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اداروں کو مزید کمزور کر دیں گے۔ جس طرح جنگ ایک سنجیدہ معاملہ ہے بالکل اسی طرح معیشت ایک بہت گھمبیر اور سنگین معاملہ ہے، جس کو جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس طرح کی معاشی امور کی کمیٹیوں کی نگرانی ایسے لوگوں سے کرانا مناسب نہیں ہے۔‘‘

معاشی ترقی کے لیے اقدامات

اکرام الحق کے مطابق اگر ہمیں معیشت کو بحال کرنا ہے تو اس کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز کرنا ہوں گی۔ ” ہمیں معاشی ترقی کے لیے ایسے فارمولے کو اپنانا ہوگا جس سے تمام شہریوں کو فائدہ ہو۔ ٹیکس یکساں ہونا چاہیے اور ٹیکس کے معاملے میں کسی کو بھی مقدس گائے کا درجہ نہیں دیا جانا چاہیے۔‘‘

فوجی افسران کی شمولیت مثبت

تاہم بزنس کمیونٹی معاشی امور کے ماہرین کے اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتی ہے کہ فوج کو معاشی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی کمیٹی کی تشکیل اور اس میں فوجی افسران کی شمولیت پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر اور معروف صنعتکار احمد چنائے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی کی کاروباری، صنعتی اور تجارتی معاملات میں بہت بے جا دخل اندازی ہے، جو سرمایہ کاری کا راستہ روکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد اس بے جا دخل اندازی کو روکنا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ اگر سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول ہوگا تو یقیناً اس سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔‘‘

احمد چنائے کے مطابق حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ پٹرولیم، ایگریکلچر، آئی ٹی اور دوسری بنیادی صنعتوں کو فروغ دیا جائے آئے۔ ”یہ تاثر ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے لیکن ان کمیٹیوں میںفوجی افسران کی شمولیت سے یہ پیغام جائے گا کہ سب ایک پیچ پر ہیں۔ حکومت مستحکم ہے اور جو سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں