بلوچستان: تربت میں سیکورٹی فورسز پر خودکش حملہ کرنے والی سمعیہ بلوچ کون تھیں؟

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے شہر تربت میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ آور ایک خاتون تھی جس کی شناخت کر لی گئی ہے۔

سمیعہ بلوچ نامی اس خاتون حملہ آور نے سینیچر کے روز تربت شہر میں کمشنر کے دفتر کے قریب سیکورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ کیا۔ جس میں حکام کے مطابق ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔

تربت میں بم دھماکوں سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز پر حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن کسی خاتون کی جانب سے اس شہر میں خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خاتون کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے تھا۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندی کے ان واقعات سے سیکورٹی فورسز مرعوب نہیں ہوں گے۔

سمعیہ بلوچ کون تھیں؟

کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق سمیعہ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔

ان کا تعلق بلوچوں کے قبیلے قلندرانی سے تھا۔ سماجی رابطے کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کالعدم بی ایل اے کی جاری کردہ معلومات کے مطابق سمعیہ بلوچ عرف سمو کی عمر 25 سال تھی۔

بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ’سمعیہ بلوچ گذشتہ سات سال سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ منسلک تھی جبکہ چارسال قبل انھوں نے رضاکارانہ طور پر تنظیم کے مجید بریگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں۔‘

سمعیہ بلوچ کے مبینہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے پروفائل پر موجود معلومات اور بی ایل اے کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھیں اور پانچ سال تک تنظیم کی میڈیا ونگ میں خدمات سرانجام دیتی رہی۔

جب بلوچستان حکومت کے ایک سینیئرعہدیدار سے خودکش حملہ آورکی شناخت اوراس کے علاقے کے بارے میں معلومات کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا خودکش حملہ آور کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جارہی ہیں تاہم ان کا تعلق توتک سے تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں نے سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لیے خواتین بمبار کا استعمال کیا ہے۔

گذشتہ برس اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کی وین پر بھی تربت سے تعلق رکھنے والی خاتون بمبار شاری بلوچ نے خود کش حملہ کیا تھا۔

اس خودکش حملے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جبکہ نور جہاں بلوچ نامی خاتون کو سیکورٹی فورسز نے ہوشاپ کے علاقے سے خودکش حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

’سمیعہ بلوچ سے قبل ان کے منگیتر نے بھی خودکش حملہ کیا تھا‘

کالعدم بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق ’سمعیہ بلوچ ریحان بلوچ کی منگیتر اور بی ایل اے کے بانی رہنما اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔‘

ریحان بلوچ نے بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب اگست 2018 میں چینی انجینیئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں تین چینی کارکنوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کا نشانہ بننے والے چینی کارکن ایک بس میں سینڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ سے دالبندین کی جانب جارہے تھے۔

’سمیعہ بلوچ کے متعدد رشتہ داروں کو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا‘

کالعدم بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ 18فروری 2011 کو سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور پر سمعیہ بلوچ کے دادا، چچا اورکزنز سمیت متعدد رشتہ داروں کو جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیربلوچ نے بتایا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ خود کش حملہ آور خاتون کون ہیں تاہم 18 فروری 2011 کو سیکورٹی فورسز نے توتک کے علاقے میں ایک بڑا آپریشن کیا تھا جس کے دوران محمد رحیم قلندرانی، ان کے بیٹوں، نواسوں اور پوتوں سمیت 15کے قریب لوگوں کو اٹھایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمدرحیم کو جس وقت لاپتہ کیا گیا اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زائد تھی۔

ماما قدیرکے مطابق نہ صرف اس آپریشن کے دوران بھی دو افراد ہلاک ہوئے بلکہ توتک سے لاپتہ کیے جانے والے افراد میں سے چند کی تشددزدہ لاشیں بھی ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا توتک سے رحیم قلندرانی سمیت متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

ایک بلوچ سیاسی کارکن خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خودکش حملہ آور سمیعہ بلوچ، رحیم قلندرانی کی پوتی تھی۔

’بلوچ خواتین کالعدم تنظیموں کے بہکاوے میں نہ آئیں‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ جب اس طرح کے واقعات میں کسی خاتون کو پکڑا جائے تو قوم پرست رہنما اور مسلح تنظیمیں اسے بلوچستان اور بلوچوں کی روایات کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میرا بلوچ قوم پرست رہنماوں اور مسلح تنظیموں سے یہ سوال ہے کہ وہ خواتین کو ان کاموں کے لیے کیوں استعمال کرتی ہیں۔

’آج اس خاتون کے جسم کے اعضا جس طرح بکھرے ہوئے پڑے تھے ۔کیا کسی بلوچ کی غیرت یہ بات برداشت کرتی ہے کہ خواتین کے جسم کے اعضا اس طرح پڑے ہوں؟‘

انھوں نے کہا کہ ہماری سیکورٹی فورسز دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں اور یہ شدت پسندوں کے خاتمے تک جاری رہے گی لیکن وہ اپنی بلوچ ماؤں اور بہنوں سے اپیل کرتے ہیں وہ ایسے لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئیں اور وہ ان کے پروپیگینڈہ کا شکار نہ ہوں۔

بلوچ خواتین کی جانب سے دوسرا خودکش حملہ

سابق صدرجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورحکومت میں حالات کی خرابی کے بعد سے بلوچستان میں اب تک متعدد خودکش حملے ہوئے ہیں۔

ان میں سے متعدد حملوں کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہیں تاہم بلوچ علیحیدگی پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی جانب سے یہ دوسرا خودکش حملہ تھا۔

اس سے قبل بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملہ کیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے اس حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد مارے گئے تھے۔

کالعدم بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مجید بریگیڈ کی صفوں میں مزید بلوچ خواتین بھی شامل ہیں۔

بلوچ خواتین کا خودکش حملوں کا رحجان کیوں؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کے سامنے آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ریاست مخالف جذبات زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں لاپتہ افراد کا دیرینہ مسئلہ ہے جس سے خواتین میں بھی رد عمل پیدا ہو گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پھر ہمارے معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی نگرانی بھی نسبتاً مشکل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان میں قوم پرستی کی تحریک ہے جس طرح مرد اس سے متاثر ہو رہے ہیں اسی طرح خواتین بھی اس اس کی جانب مائل ہو رہی ہیں۔

عامر رانا کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قوم پرستی کی جتنی بھی تحریکیں ہیں ان کا رحجان بائیں بازو کی تحریکیوں کی جانب ہے۔

’دنیا کی بائیں بازو کی تحریکیوں میں خودکش حملوں کا رحجان رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی تحریک میں یہ رحجان تھا اور اس میں خواتین بھی شامل تھیں اس لیے یہ کوئی نیا رحجان نہیں ہے۔‘

اس سوال پر کہ خواتین میں خودکش حملوں کا رحجان کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، عامر رانا کا کہنا تھا کہ ’یہ اب بھی خطرناک ہے۔ یہ اب تک اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔ کالعدم بی ایل اے کی ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس بڑی تعداد میں مرد اور خواتین خودکش حملہ آور ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکورٹی کے ادارے اس خطرے سے کس طرح نمٹتے ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خواتین میں خود کش حملوں کا رحجان ایک ڈیڑھ سال پہلے اس وقت سامنے آیا جب شاری بلوچ نامی خاتون نے کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ حملہ سب کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ حالانکہ پہلے سے یہ رپورٹس تھیں کہ خواتین بھی مسلح تحریک کا حصہ ہیں لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ بلوچ خواتین خودکش حملہ بھی کریں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب شاری نے حملہ کیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے ٹریپ ہو گئی ہو گی۔ لیکن خضدار سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون نے حملہ کر کے سب کو ایک مرتبہ پھر حیران کیا ہے۔‘

انھوں نے اسے بلوچ شورش میں یہ ایک نیا رحجان اور موڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے خواتین عملی طور پر مسلح تحریک کا حصہ نہیں رہیں لیکن اب وہ عملی طور پر حصہ بن گئی ہیں ’اس سے لگتا ہے کہ خواتین کا شورش میں متحرک کردارہے۔‘

توتک سے اجتماعی قبروں کی دریافت

خیال رہے کہ 2014 میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک ہی سے اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی تھیں۔

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور قوم پرست جماعتوں نے یہ الزام عائد کیا تھا وہاں سے بازیاب ہونے والی لاشیں لاپتہ افراد کی تھیں۔

حکومت نے ان اجتماعی قبروں کے بارے میں عدالتی کمیشن بھی قائم کیا تھا۔

تربت کہاں واقع ہے؟

تربت بلوچستان کے ضلع کیچ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ تربت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازا آٹھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔

اس ضلع کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں اور یہ انتظامی لحاظ سے بلوچستان کے مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔ ضلع کیچ کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے متاثر ہیں۔ اس ضلع میں بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔

تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ضلع کیچ میں حالات میں بہتری آئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں