اسرائیل کے جنین آپریشن کا اختتام: ہلاک ہونے والے فلسطینی جنگجو کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کا سلسلہ جاری

تل ابیب + غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں ایک پناہ گزین کیمپ میں سینکڑوں فوجیوں کی مدد سے کیا گیا دو روزہ آپریشن اپنے اختتام کو پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک 12 فلسطینی اور ایک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت کی تصدیق ہو سکی ہے۔

ہلاک ہونے والے 12 فلسطینیوں کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔

خیال رہے کہ پیر کو شروع ہونے والے آپریشن کے بعد سے کم از کم تین ہزار فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑ کر انخلا پر مجبور ہوئے ہیں

اسرائیل کے اس فوجی آپریشن کو گذشتہ 20 سالوں کا سب سے بڑا آپریشن کہا جا رہا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کا سامنا جنین بریگیڈز سے ہے، جو کہ مختلف فلسطینی ملیشیاؤں پر مشتمل یونٹ ہے اور شہر کے وسط میں قائم پناہ گزین کیمپ میں مقیم تھے۔

مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (الأونروا) کے مطابق اس کیمپ میں تقریباً چودہ ہزار افراد آدھے مربع کلومیٹر سے بھی کم رقبے والے علاقے میں رہتے تھے۔

بی بی سی کے بین الاقوامی مدیر جیریمی بوین کا کہنا ہے کہ سیاہ راکھ کی موٹی تہہ جنین کے وسط میں فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر بیٹھ چکی ہے۔

یہ فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے یہاں ٹائر جلانے کے باعث موجود ہے، یہ نوجوان ان گلیوں میں احتیاط سے چلتے ہیں جہاں بھی انھیں اسرائیلی جیپس نظر آتی ہیں۔ ان میں سے کچھ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں اور کچھ کے ہاتھوں میں دیسی ساختہ بم ہوتے ہیں جو وہ یہاں سے گزرنے والی اسرائیلی گاڑیوں پر پھینکتے ہیں۔

ٹاؤن سینٹر میں اونچی سطح پر موجود پناہ گزین کیمپ میں وقفے وقفے سے دھماکوں کی آواز آتی ہے، کبھی گولیوں اور کبھی دھماکوں کی۔ اسرائیلی ڈرونز آسمان پر مسلسل موجود رہتے ہیں۔

ہر کچھ وقت کے بعد مسلح فلسطینی ٹائروں کے دھوئیں سے نکلتے ہیں اور اسرائیلیوں پر فائر کرتے ہیں۔

اس سال اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پرتشدد واقعات ایک معمول بن گئے ہیں۔ جب یہ واقعات ہلاکت خیز ہوتے ہیں تو اکثر جوابی کارروائی کا خطرہ رہتا ہے جس میں فلسطینی مسلح گروہ، مقبوضہ مغربی کنارے میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی آبادکاریوں میں رہنے والے یہودی اور اسرائیلی فوج شامل ہوتی ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے جینین کیمپ میں داخل ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ یہاں سے حالیہ عرصے میں 50 سے زیادہ حملے کیے جا چکے ہیں۔

تاہم تشدد، مایوسی اور نفرت کی جڑیں اس حالیہ کارروائی سے کہیں گہری ہیں۔ یہ ایک ایسے تنازع کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زہر کے نتیجے میں پروان چڑھا ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصے قبل زمین کے ایک تنازع کے باعث پیدا ہوئی تھی۔

سنہ 1990 میں ایک موقع پر اس بارے میں امیدیں بحال ہوئی تھیں کہ اب امن قائم ہو جائے گا اور ایک آزاد فلسطین ریاست کو اسرائیل کے ساتھ بنایا جا سکے گا۔ یہ نام نہاد دو ریاستی حل تھا۔ تاہم یہ کوشش ناکام رہی۔

طاقتور مغربی ممالک جن میں امریکہ، یورپی یونین اراکین اور برطانیہ اب بھی دو ریاستی حل پر زور دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے۔

ان کے الفاظ خالی نعروں کی طرح ہیں۔ امریکی کی جانب سے اس ضمن میں کی گئی آخری کوشش سنہ 2014 میں ناکام ہو گئی تھی۔

جنین میں اسرائیلی آپریشن کئی ماہ سے تعطل کا شکار رہا۔

اسرائیل کی جانب سے کیے گئے چھوٹے حملوں کے باوجود فلسطینی مسلح گروہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ وہ جنین پناہ گزین کیمپ کا کنٹرول سنبھالے رکھا اور وہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔

پہلے انھوں نے ایک اسرائیلی جیپ کو دھماکے سے اڑا دیا تھا اور ایک اسرائیلی حملے کو پسپا کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی تھی جس میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں ایک 15 سالہ لڑکی بھی شامل تھیں۔

اگلے روز چار اسرائیلیوں کو دو فلسطینیوں نے ہلاک کر دیا تھا جو جینین سے کچھ ہی دور موجود ایک ریستوران میں گھسے جہاں وہ کھانا کھا رہے تھے۔

اسرائیلی فوج یہودی آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرتی آئی ہے جو فلسطینی دیہاتوں میں گھس کر گاڑیوں اور مکانات کو نذر آتش کر دیتے ہیں۔

ایسے میں اسرائیلی فوج جنین پناہ گزین کیمپ میں موجود فلسطینیوں کے خلاف حرکت میں آئی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کا سراغ لگانے اور انھیں تباہ کرنے کے لیے ایک منظم آپریشن کر رہا ہے۔

اسرائیلی فوج کیمپ میں دو دنوں کے دوران دریافت ہونے والے دھماکہ خیز مواد کے بارے میں اپ ڈیٹ جاری کر رہی ہے۔

جنین میں فوج آپریشن کا سبب کیا تھا؟

حالیہ ہفتوں میں کیمپ کے اردگرد تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

گذشتہ ماہ 20 جون کو جنین پر اسرائیلی حملے میں سات فلسطینی مارے گئے، جس میں فوج نے حملہ آور ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔

اگلے دن حماس کے دو عسکریت پسندوں نے جنین سے 40 کلومیٹر جنوب میں ایلی بستی کے قریب ایک گیس سٹیشن اور ایک ریستوران میں چار اسرائیلیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اس حملے کے بعد سینکڑوں اسرائیلی آباد کاروں نے قریبی قصبے ترمسایا میں مکانات اور کاروں کو مسمار اور جلا دیا۔ یہاں ایک فلسطینی کو گولی مار کر ہلاک بھی کیا گیا۔

اس کے فوراً بعد، ایک اسرائیلی ڈرون نے جنین میں تین فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ مبینہ طور ان تینوں نے شہر کے قریب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔

تشدد کی یہ تازہ لہر اس بڑے فوجی آپریشن کی وجہ بنی ہے جو مغربی کنارے میں حالیہ برسوں میں سب سے بڑا آپریشن ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا ہدف فلسطینی نہیں بلکہ حماس اور اسلامی جہاد جیسی ’ایران کی مالی اعانت سے چلنے والی ملیشیا‘ ہیں، جنھیں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہ’ “دہشت گرد تنظیمیں‘ قرار دیتے ہیں ۔

فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ کے لیے یہ آپریشن ’کیمپ کو تباہ کرنے اور رہائشیوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی کوشش‘ ہے، اور انھوں نے یقین دلایا ہے کہ ’جب تک یہ مجرمانہ قبضہ جاری رہے گا، فلسطینی ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘۔

بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار پال ایڈمز کہتے ہیں کہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں سخت گیر کئی مہینوں سے فوج پر اس کریک ڈاؤن کرنے کے لیے زور دے رہے تھے۔ لیکن بظاہر اسرائیلی فوج کے اندر موجود کچھ لوگوں اس کے خلاف تھے کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ یہ پہلے سے ہی غیر مستحکم صورتحال کو مزید بھڑکا سکتا ہے‘۔

ایڈمز کہتے ہیں کہ ماضی میں جینن اور دیگر مقامات پر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے ہیں، لیکن ایسی کارروائیاں مسائل کے حل کے بجائے تشدد کو مزید ہوا دیتی ہیں۔

جینن ایک ابلتے ہوئے لاوے جیسا کیوں ہے؟

ایڈمز کا کہنا ہے کہ جنین مغربی کنارے میں ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں فلسطینی عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل نے قبضہ جما رکھا ہے۔

’اس نوجوان ملیشیا نے کبھی امن نہیں دیکھا۔ انھیں نہیں لگتا کہ اس تنازع کے سفارتی حل کا کوئی امکان موجود ہے۔ انھیں اپنے سیاسی لیڈروں پر قطعی اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے وہ قبضے کے خلاف اسی طرح لڑ رہے ہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں لڑنا چاہیے‘۔

الأونروا کے اعداد و شمار کے مطابق، مغربی کنارے کے 19 پناہ گزین کیمپوں میں سے جنین میں غربت اور بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

بی بی سی عربی سروس کے نامہ نگار علاء درگمے نے صرف دو سالوں کے دوارن جنین میں عسکریت پسندوں کی تعداد دسیوں سے بڑھ کر سینکڑوں ہوتے دیکھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس مایوسی کے پیش نظر، مغربی کنارے میں اسرائیل کے حفاظتی اقدامات کے خلاف مسلح مزاحمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کو روکنا چاہیے جو حالیہ برسوں میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور جن پر پابندی لگانے کا موجودہ اسرائیلی حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

نیشنل انیشی ایٹو پارٹی کی قیادت کرنے والے مصطفیٰ برغوتی کے مطابق ’اہم سوال یہ ہے کہ نوجوان یہ راستہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟‘

وہ کہتے ہی کہ ’ایسا اس لیے ہے کہ ہم 56 سال سے (اسرائیلی) فوجی قبضے میں رہ رہے ہیں جبکہ دنیا نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔۔۔ یہ نوجوان مایوس ہیں کیونکہ عالمی برادری نے اسرائیل کو قبضہ جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘

بی بی سی کے بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) جس کے پاس مقبوضہ علاقوں کے کچھ حصوں میں انتظامی اور حفاظتی ذمہ داریاں ہیں، جنین پناہ گزین کیمپ کا کنٹرول بھی کھو چکی ہے۔

بوون کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی، جس نے برسوں سے انتخابات نہیں کروائے، بہت سے فلسطینیوں کے نزدیک وہ اپنا اختیار کھو چکی ہے۔

بوون کا کہنا ہے کہ ’فلسطینیوں کو اسرائیلی سکییورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور خاص طور پر، ریاستی سرپرستی میں قائم بستیوں میں رہنے والے آباد کاروں سے، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، بچانے کے لیے بھی فلسطینی اتھارٹی کچھ نہیں کر سکتی‘۔

جینین پناہ گزین کیمپ کی تاریخ کیا ہے؟

یہ کیمپ 1950 کی دہائی کے اوائل میں 1948-49 کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے بنایا گیا تھا، نئی بننے والی ریاست اسرائیل اپنے عرب پڑوسیوں کے خلاف کھڑی ہو چکی تھی۔

کم از کم سات لاکھ پچاس ہزار افراد کو اپنے گھروں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا جسے فلسطینی ’نقبہ‘ یا ’تباہی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

دوسرے انتفادہ یعنی 2000 – 2005 کے درمیان اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں پھر سے تشدد کی لہر آئی اور جینین کیمپ کشیدگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔

اپریل 2002 میں اسرائیل میں خودکش بم دھماکوں کے بعد (جس میں بہت سے حملہ آورں کا تعلق مبینہ طور پر اسی قصبے سے ظاہر کیا گیا تھا) اسرائیلی افواج نے کیمپ پر بڑے پیمانے پر چھاپے مارے جو 10 دن تک جاری رہے اور یہ ’جنگِ جینین‘ کے نام سے مشہور ہوئی ۔

لڑائی میں کم از کم 52 فلسطینی، جن میں سے نصف عام شہری تھے، ہلاک ہو گئے، اس دوران 23 ​​اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ تقریباً 400 گھر تباہ ہوئے اور ایک چوتھائی آبادی اپنے گھروں سے محروم ہو گئی۔

اس کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اسرائیل پر انسانی ہمدردی والے عملے کو پناہ گزینوں کے کیمپ میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر اور فلسطینی فریق کو شہریوں کے گھروں میں عسکریت پسندوں کو چھپانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں