پشاور میں ریگی ماڈل ٹاؤن چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 2 پولیس اہلکار ہلاک، 2 زخمی

پشاور (ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ریگی ماڈل ٹاؤن تھانے کی حدود میں پولیس چیک پوسٹ پر رات گئے کیے گئے دہشت گردوں کے حملے میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے۔

ریگی (ورسک سرکل) سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ارشد خان کے مطابق گزشتہ رات تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر ریگی ماڈل ٹاؤن کے داخلی دروازے پر پولیس اہلکار ڈیوٹی تبدیل کر رہے تھے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کردی۔

انہوں نے ڈان نیوز کو مزید بتایا کہ جہاں پولیس وین کھڑی تھی اس سے 30 میٹر کے فاصلے پر دریا کے پار سے 17 گولیاں چلائی گئیں۔

ایس پی ارشد خان نے کہا کہ اضافی چوکیاں قائم کرنے کے بعد آپریشن جاری ہے، پولیس نے اقدامات کیے ہیں جب کہ فورسز بھی چوکس ہیں۔

سینئر پولیس افسر نے کہا کہ حملہ آوروں کی تعداد اور ان کے طریقہ واردات سے متعلق اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

اس کے علاوہ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل اختر حیات نے حملے سے متعلق بتایا کہ اسنائپر فائرنگ میں ایک ایم 4 ہتھیار استعمال کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ ہتھیار پر ممکنہ طور پر تھرمل ویژن ڈیوائس نصب تھی۔

آئی جی کے پی کا مزید کہنا تھا کہ دونوں پولیس اہلکاروں کو سر پر گولی لگی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خیبر پختونخوا پولیس کے حوصلے بلند ہیں، آئی جی کے پی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حملہ آوروں کا جلد سراغ لگائیں گے۔

ہلاک ہونے والے کانسٹیبل واجد اور کانسٹیبل فرمان کی نماز جنازہ ملک سعد شہید پولیس لائن پشاور میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کر دی گئی،

اس موقع پر پولیس کے چاق و چوبند دستے نے دونوں کو سلامی پیش کی۔

ایک روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ایک پولیس کانسٹیبل مبارک شاہ کو نامعلوم دہشت گردوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

منگل کے روز خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے حیات آباد میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے قافلے کے قریب دھماکے میں کم از کم اہلکار ہلاک اور 10 افراد زخمی ہو گئے۔

دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے پاکستان میں خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ 2 جولائی 2023 کو بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کا ایک اور پولیس کے 3 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے جبکہ ایک دہشت گرد مارا گیا تھا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی رواں مہینے کے اوائل میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق موجودہ سال کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کا خطرناک رجحان جاری رہا، جس میں ملک بھر میں 389 افراد کی جانیں چلی گئیں۔

اسی طرح 24 جون کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہر تربت میں پولیس وین کے قریب خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا تھا۔

اس سے قبل 2 جون کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاک-ایران بارڈر کے قریب سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے 2 ہلاک ہوگئے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے 26 جون کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف رواں سال کے دوران 13 ہزار 619 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس آپریشنز کیے اور اس دوران ایک ہزار 172 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 77 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بلوچستان میں ژوب کے علاقے گیریژن میں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے میں 9 فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اس کے علاوہ رواں ماہ ہی بلوچستان کے علاقے سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 3 جوان ہلاک ہوئے جبکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے 2 دہشتگرد بھی مارے گئے۔

ان حملوں کے بعد پاک فوج نے کہاکہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت منعقدہ 258ویں کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو پڑوسی ملک میں حاصل پناہ گاہیں اور جدید ہتھیار کی دستیابی پاکستان کی اندرونی سلامتی متاثر کرنے والی بنیادی وجوہات ہیں۔

اس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ژوب میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی سی ایم ایچ کوئٹہ میں عیادت کی جس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش ہے۔

15 جولائی کو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 50 سے 60 لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4 سے 5 دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں، اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔

اس سے قبل بھی پاکستان بارہا سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔

فوج اور حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ خدشات کے جواب میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی فریق کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ہم جنگوں کے نتائج بھگت چکے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ دوسرے ممالک بھی افغانستان کی طرح تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کریں۔

اس کے علاوہ بی بی سی پشتو کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں، ذبیح اللہ مجاہد نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں