لبنان: پناہ گزین کیمپ میں فلسطینی گروپوں میں جھڑپیں، درجنوں ہلاک و زخمی

بیروت (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میقاتی نے ملک میں فلسطینی پناہ گزینوں کے سب سے بڑے کیمپ میں جاری ہلاکت خیز جھڑپیں بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ اگر تشدد بند نہ ہوا تو فوج مداخلت کرسکتی ہے۔

جھڑپوں کے متعدد واقعات کے بعد، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں، میقاتی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو صورت حال کے بارے میں ٹیلی فون کیا۔

جنوبی لبنان میں قائم عین الحلوہ کیمپ میں 50 ہزار سے زیادہ پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ وہاں جھڑپوں کا آغاز اتوار کے روز عباس کی فتح پارٹی اور اسلام پسند گروپوں جندالشام اور شباب المسلم کے درمیان شدید جھڑپوں سے ہوا۔ الفتح نے الزام لگایا ہے کہ اسلام پسندوں نے اتوار کے روز الفتح کے ایک جنرل کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی پارٹی الفتح نے الزام لگایا ہے کہ اسلامی عسکریت پسندوں نے اتوار کے روز پناہ گزین کیمپ میں الفتح کے ایک فوجی جنرل ابو اشرف المروشی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جھڑپوں کی ابتدا ہفتے کے روز اس وقت ہوئی جب ایک نامعلوم شخص نے ایک عسکریت پسند گروپ کے رکن محمود خلیل کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، مگر گولی سےاس کا ایک ساتھی زخمی ہو گیا۔ اگلے روز عسکریت پسند گروپ نے جوابی کارروائی میں الفتح گروپ کے ایک جنرل کو اس کے تین محافظوں سمیت اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ ایک پارکنگ لاٹ سے گزر رہے تھے۔

الجزیرہ نے لبنان کے فوجی ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کے روز تک ان جھڑپوں میں 9 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہو چکے تھے۔

عین الحلوہ ان 12پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک ہے جو 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد لبنان میں فلسطینوں کے لیے بنائے گئے تھے۔ سن 1969 میں لبنان اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت لبنانی فوج کیمپوں میں داخلے سے گریز کرتی رہی ہے لیکن حالیہ خونی جھڑپوں کے بعد کئی لبنانی عہدے داروں نے اپیل کی ہے کہ فوج ان کیمپوں کا انتظام سنبھال لے۔

یہ کیمپ لبنان کے شہر صیدا کے قریب واقع ہے۔ جھڑپوں کے بعد کیمپ میں مقیم تقریباً سو کے لگ بھگ پناہ گزینوں نے صیدا کی ایک مسجد میں پناہ لے رکھی ہے، جن میں شیخ احمد نادر بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کے بعد سے دو ہزار کے لگ بھگ افراد مسجد میں پناہ لے چکے ہیں۔

کیمپ کے ایک اور پناہ گزین محمد صباح کہتے ہیں کہ ہم اس صورت حال سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمارے بچے بھی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑائی کی وجہ سے لوگ محصور ہو گئے ہیں۔ دکانیں بند ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ روٹی تک دستیاب نہیں ہے۔ تمام راستے بند ہیں۔

کیمپ کے قریب واقع الحمشاری اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر ریاض ابو العنین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بدھ کی رات جھڑپوں کے بعد اسپتال میں ایک نعش لائی گئی جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 13 ہو گئی ہے جب کہ درجنوں زخمی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ صورت حال جاری رہتی ہے تو اس سے نہ صرف کیمپ میں موجود خاندان متاثر ہوں گے بلکہ صیدا کے تمام شہریوں پر بھی دباؤ پڑے گا، خاص طور پر اس لیے کہ شہر کے رہائشی علاقوں میں راکٹ سے پھینکے جانے والے گولے، دستی بم اور گولیاں گر رہی ہیں۔

صیدا کے علاقے میں الفتح گروپ کے مقامی سربراہ شبیطہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بدھ کی رات کو ہونے والی جھڑپوں میں الفتح کا ایک رکن بھی مارا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے گروپ نے عسکرت پسندوں کے حملے کے خلاف اپنا دفاع کیا۔شبیطہ کا الزام تھا کہ عسکریت پسندوں نے پیر کے روز طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ کیمپ کا امن تباہ کرنا اور اسے دہشت گردوں کا ایک ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کیمپ کے فلسطینی دھڑوں نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے جو یہ تعین کرے گی کہ المروشی کے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔اور پھر انہیں مقدمہ چلانے کے لیے لبنانی عدلیہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

لبنان میں قائم پناہ گزین کیمپ فلسطینی دھڑوں کے کنٹرول میں ہیں اور لبنانی فوج ان میں مداخلت سے عموماً گریز کرتی ہے۔ اس نے عین الحلوہ کے تنازع سے بھی ابھی تک خود کو الگ رکھا ہوا ہے۔ لیکن 2007 میں لبنانی فوج نے ملک کے شمالی حصے میں واقع پناہ گزینوں کے ایک اور کیمپ نہر البارد میں کارروائی کر کے اس کے ایک بڑے حصے کو مسمار کر دیا تھا۔

لبنانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل الیاس فرحت نے، جو اب عسکری امور کے محقق ہیں، کہا ہے کہ یہ امکان موجود نہیں کہ لبنانی فوج عین الحلوہ کیمپ میں مداخلت کرے گی کیونکہ نہر البارد میں عسکریت پسندوں نے لبنانی فوج کو براہ راست نشانہ بنایا تھا جب کہ عین الحلوہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں