روس یوکرین جنگ: سعودی عرب امن مذاکرات کا میزبان

جدہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہفتے کے روز سے یوکرین کی جنگ کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے دو روزہ اجلاس کا آغار ہو گیا۔ ان مذاکرات میں چالیس ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ذرائع کے مطابق اجلاس کے پہلے دن کے ایجنڈا میں عشائیہ پر دو گھنٹے کے مذاکرات سے پہلے تین گھنٹوں تک مختلف وفود کے نمائندوں کے بیانات کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

عرب بادشاہت سعودی عرب کی میزبانی میں جدہ شہر میں یوکرین کے بحران کے موضوع پر بلائے گئے اس اجلاس کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یوکرینی صدارتی دفتر کے سربراہ آندری یرماک نے جمعہ کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ بات چیت آسان نہیں ہوگی۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ’‍’لیکن سچائی ہماری طرف ہی ہوگی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہمیں بہت سے اختلافات ہیں اور ہم نے بہت سے موقف بھی سنے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اصولوں کو دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔‘‘ یرماک جدہ می‍‍‍ں منعقدہ اجلاس میں کییف کے وفد کے سربراہ بھی ہیں۔ اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہمارا کام پوری دنیا کو یوکرین کے گرد متحد کرنا ہے۔‘‘

یہ اجلاس آج ہفتہ پانچ اگست کی سہ پہر بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں شروع ہوا۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں تمام 40 ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں اور دیگر سینیئر سیاسی اور سفارتی حکام شریک ہیں۔ تاہم اس اجلاس میں روس شریک نہیں ہے۔

کییف حکومت پُر اُمید ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آئے گا اور یوکرین روس جنگ کے خاتمے کے لیے یوکرین کے اتحادی کییف کے کلیدی اصولوں سے اتفاق کرتے ہوئے اس سنگین صورتحال میں بہتری لانے پر کسی اتفاق تک پہنچیں گے۔

جدہ میٹنگ جون میں کوپن ہیگن میں ہونے والی بات چیت کے بعد ہو رہی ہے تاہم اس کا کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سعودی شہر میں واشنگٹن کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ اگرچہ واشنگٹن کو ہفتہ کے اجلاس سے کوئی بڑی پیش رفت یا مشترکہ بیانات سامنے آنے کی توقع نہیں ہے، لیکن سفارت کاروں نے اس کی بجائے کہا کہ یوکرین کے زیر اہتمام ہونے والی میٹنگوں کا مقصد امن کی راہ کے بارے میں کئی ممالک کو بحث میں شامل کرنا تھا۔ خاص طور پر BRICS بلاک کے ان ممبران کو جنہوں نے مغربی طاقتوں کے مقابلے میں روس کی جنگ پر زیادہ غیر جانبدارانہ موقف اپنایا ہے، انہیں ان مذاکرات میں شامل کر کے اس امر کا قائل کیا جائے کہ وہ روس کی مذمت کرتے ہوئے یوکرین کی ساتھ اُس کی جنگ کو بند کروائیں۔

یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی کے دفتر نے کہا کہ ملاقات میں ان کے 10 نکاتی امن فارمولے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس میں یوکرین کی سرزمین سے روسی فوجیوں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ اس میںیوکرین کی سرحدوں کی بحالی کا مطالبہ بھی شامل ہے، بشمول کریمیا کا علاقہ، جس کا روس نے 2014 ء سے الحاق کر رکھا ہے۔

روس ماضی میں کہہ چکا ہے کہ کسی بھی مذاکرات میں ”نئے علاقائی حقائق‘‘ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

چین نے جمعہ کو اعلان کیا کہ وہ ‘یوریشین‘ امور کے لیے اپنے خصوصی نمائندے لی ہوئی کو بھیجے گا۔

اُدھر بھارت اور جنوبی افریقہ نے بھی حکام کو جدہ بھیجا ہے، جبکہ برازیل کے میڈیا نے بتایا کہ صدر لوئیز اناسیو لولا ڈے سلوا کے بین الاقوامی امور کے خصوصی مشیر سیلسو اموریم ویڈیو کانفرنس کے ذریعے جدہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ جمعے کو خطاب کرتے ہوئے یوکرینی صدر زیلنسکی نے ان ترقی پذیر ممالک کی شرکت کا خیرمقدم کیا جو جنگ کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے سخت متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”یہ بہت اہم ہے، کیونکہ غذائی تحفظ جیسے مسائل پر، افریقہ، ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں لوگوں کی قسمت کا براہ راست انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا امن کے فارمولے کو نافذ کرنے کے لیے کتنی تیزی سے آگے بڑھتی ہے۔‘‘

یاد رہے کہ مئی میں، سعودی مملکت نے جدہ میں عرب سربراہی اجلاس میں زیلنسکی کی میزبانی کی تھی جہاں انہو‍‍ں نے کچھ رہنماؤں پر الزام لگایا کہ وہ روس کے حملے کی ہولناکیوں کی طرف ”آنکھیں بند‘‘ کیے ہوئے ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاست کے ماہر عمر کریم نے کہا کہ ریاض نے ایک ”کلاسک توازن کی حکمت عملی‘‘ اپنائی ہے جو اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں روس کے ردعمل کو نرم کر سکتی ہے۔

سعودی تجزیہ کار علی شہابی کا کہنا ہے، ’’یہ مذاکرات یوکرین، روس اور چین کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنے کی سعودی عرب کی کثیر القطبی حکمت عملی کی کامیابی کی ایک اہم مثال ہے۔‘‘

اُدھر انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مشرق وسطیٰ کے پروگرام ڈائریکٹر جوسٹ ہلٹر مین کا کہنا ہے، ’’ریاض آگے بڑھنا چاہتا ہے، بھارت یا برازیل کی صحبت میں رہنا چاہتا ہے، کیونکہ صرف ایک کلب کے طور پر یہ درمیانی طاقتیں عالمی سطح پر اثر ڈالنے کی امید کر سکتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’آیا وہ تمام چیزوں بشمولیوکرین کی جنگ جیسے امور پر متفق ہو سکیں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں