روس نے قیدیوں پر بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کیا، رپورٹ

نیو یارک (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) بین الاقوامی ماہرین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجیوں نے خیرسون میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیاں کیں اور یہ کہ روس کے جنگی جرائم کا اصل پیمانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔

انسانی حقوق کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ روس کے زیر قبضہ جنوبی یوکرین میں قائم عارضی حراستی مراکز میں قید بڑی تعداد میں قیدیوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کیا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم گلوبل رائٹس کمپلائنس کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک موبائل جسٹس ٹیم نے آٹھ ماہ تک روسی قبضے میں رہنے کے بعد یوکرینی افواج کی طرف سے دوبارہ اپنے کنٹرول میں لیے جانے والے خیرسون کے علاقے میں یوکرین کے جنگی جرائم کے پراسیکیوٹرز کے ساتھ مشترکہ طور پر تفتیشی کام سر انجام دیا۔

یوکرین کے حکام جنگی جرائم کی 97,000 سے زیادہ رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہوں نے 220 مشتبہ افراد کے خلاف ملکی عدالتوں میں الزامات کے تحت مقدمات دائرکیے ہیں۔ اعلیٰ سطحی مجرموں کے خلاف دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، جو پہلے ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن کی گرفتاری کا مطالبہ کر چکی ہے۔

کریملن نے یوکرین کے خلاف اپنے ‘خصوصی فوجی آپریشن‘ میں حصہ لینے والے فوجیوں پرجنگی جرائم کے الزامات کی مسلسل تردید کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسی کو’ڈی نازیفائی‘ کرنے اور روس کی حفاظت کے لیے یہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے مالی اعانت حاصل کرنے والی موبائل جسٹس ٹیم کی تازہ ترین رپورٹ میں خیرسون کے علاقے میں 35 مقامات پر 320 مقدمات اور گواہوں کے بیانات کا تجزیہ کیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”43 فیصد نے حراستی مراکز میں تشدد کے واضح طریقوں کا ذکر کیا ہے، جس میں روسی محافظوں کی طرف سے جنسی تشدد کو ایک عام حربہ قرار دیا گیا ہے۔‘‘

روسی وزارت دفاع نے فوری طور پر اس رپورٹ کے نتائج پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

یوکرین کے پراسیکیوٹرز نے اپنا پہلا مقدمہ جون کے مہینے میں خیرسون سے درجنوں یتیم بچوں کی مبینہ ملک بدری پر سامنے لایا تھا، جس میں ایک روسی سیاست دان اور اس کے دو مشتبہ یوکرینی ساتھیوں پر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا گیا۔ انہوں نے تشدد سے متعلق تازہ ترین نتائج پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔

واٹر بورڈنگ، مار پیٹ

رائٹرز نے جنوری میں خیرسون میں مبینہ تشدد کے پیمانے پر ایک رپورٹ کی تھی ۔ یوکرینی حکام نے اس وقت کہا تھا کہ تقریباً 200 افراد کو مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھا گیا تھا۔ روسی قید سے زندہ بچ جانے والوں نے رائٹرز کو بجلی کے جھٹکے اور دم گھٹنے سمیت حکمت عملی کے بارے میں بتایا۔ اس وقت کریملن اور روس کی وزارت دفاع نے مبینہ تشدد اور غیر قانونی حراستوں کے بارے میں روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا تھا۔

گلوبل رائٹس کمپلائنس کی ایک سینئیر قانونی مشیر انا میکیتینکو نے تشدد سے متعلق تازہ ترین نتائج کے بارے میں کہا، ”روس کے جنگی جرائم کا اصل پیمانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔‘‘ تاہم ان کے بقول ،” جو ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یوکرین کے لوگوں کے ذہنوں پر ان ظالمانہ جرائم کے نفسیاتی نتائج آنے والے برسوں تک نقش ہوں گے۔‘‘

استغاثہ کے ذریعہ انٹرویو کیے گئے کم از کم 36 متاثرین نے پوچھ گچھ کے دوران بجلی کے کرنٹ کے استعمال کا ذکر کیا، اکثر نازک جسمانی عضو میں بجلی کے کرنٹ لگانا اور پھر انہیں مسخ کرنے کی دھمکیاں دینا بھی روسی ہتھکنڈوں میں شامل تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متاثرہ شخص کو ایک دوسرے زیر حراست فرد کی عصمت دری کا مشاہدہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

تحقیقات میں پایا گیا کہ حراست میں لیے جانے والے اور تشدد سے گزرنے والوں میں زیادہ تر فوجی اہلکار، قانون نافذ کرنے والے، رضاکار، کارکن، کمیونٹی لیڈر، طبی کارکن اور اساتذہ بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تفتیش کارووں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ٹارچر کی تکنیکیں دم گھونٹنا، واٹر بورڈنگ، شدید مار پیٹ اور عصمت دری کی دھمکیاں تھیں۔

رائٹرز ان الزامات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ اس عالمی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے برطانوی بیرسٹر وین جورداش نے کہا کہ آزاد کرائے گئے حراستی مراکز سے ملنے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرینی شناخت ختم کرنے کے پوٹن کے منصوبے میں نسل کشی کو جنم دینے والے جرائم کی ایک حد شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں