پاکستان کے سینیٹ نے توہین صحابہؓ، اہلبیتؑ و امہات المومنینؓ کا بل منظور کرلیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا، یعنی سینیٹ نے توہین صحابہؓ، اہلبیتؑ اور امہات المومنینؓ کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے اس بل کی فوری منظوری کی مخالفت کی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں یہ بل آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے رکن سینیٹر عبدالکریم نے پیش کیا اور کہا کہ یہ بل چھ ماہ سے زیر التوا ہے لہذا اب اسے مزید تاخیر کا شکار نہ کیا جائے اور ایوان اسے منظور کر کے قانون سازی کرے۔

بل پیش کرنے پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ آج کل سوشل میڈیا پر صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ کی انتہائی گستاخی کی جارہی ہے، جو سوشل میڈیا پر توہین ہورہی ہے وہ اس ایوان میں بیان بھی نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ کی توہین کے ثبوت لیگل کمیشن برائے توہین نے ہمیں فراہم کیے ہیں، سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین روکی جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر توہین روکنے کا بل منظور کیا ہے اسے یہاں بھی متفقہ منظور کیا جائے۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قرآن نے جب صحابہؓ و اہلبیتؑ کو عظیم قرار دیا تو ہم ان کی توہین روکنے کے لئے کیوں قانون سازی نہ کریں، یہاں سے قومی اسمبلی کی طرح متفقہ قانون سازی کرکے دنیا کو پیغام دیں، جس طرح انبیا کی توہین کی سزا ہے اسی طرح صحابہؓ و اہلبیتؑ کی توہین کی بھی سزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ کی توہین کی سزا تین سال بہت کم تھی اسے بڑھایا جارہا ہے، توہین کی سزا کم ہونے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ کی توہین ہورہی ہے، ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ ان اصحابؓ و اہلبیتؑ کی توہین ہورہی تھی اور ہم ان کی توہین روکنے کے لئے لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔

سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ توہین صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ بل کو پیش کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں توہین صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ روکنے کے بل کی حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت حسنینؑ کی جو شان بیان کی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

بعد ازاں وفاقی وزیر وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود نے ایوان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی نمائندے کی حیثیت سے میں اس بل کو منظور کرنے کی حمایت کرتا ہوں اور ایوان کی جو رائے ہے اس کا ساتھ دوں گا۔

ایوان میں موجود مسلم لیگ ن کے سینیٹر ساجد میر نے بھی بل کی حمایت کی جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بل کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا بھی نہیں ہے لہذا اسے قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ اس پر سینیٹر کامل علی آغاز نے بھی کہا کہ کمیٹی یہ بل دیکھے گی بھی نہیں۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن سمیت ایوان کے کچھ ارکان اس بات پر مصر تھے کہ بل کو نظرثانی کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جانا چاہیے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ جلد بازی میں بل پاس کی روایت بن چکی ہے، ابھی ہم نے بل دیکھا تک نہیں ہے، ہمیں تمام انبیا کے احترام کا خیال ہے لیکن اس بل کو غور فکر کے بغیر محض مذہب کے نام پر منظور نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن بل پیش کرنے والے حافظ عبدالکریم نے اصرار کیا کہ بل کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے۔

سینیٹر حافظ عبدالکریم نے شیری رحمان کے اعتراض پر کہا کہ پہلے ہی یہ بل چھ ماہ سے لٹکا ہوا ہے لہذا آپ مزید تاخیر نہ کریں۔

اس پر چیئرمین سینیٹر صادق سنجرانی نے وزیر مذہبی امور کی بل کی حمایت پر منظوری کا اعلان کیا اور بتایا کہ سینیٹ نے توہین صحابہ کرامؓ اہلبیتؑ عظام امہات المومنینؓ بل 2023کی منظورے دے دی۔

فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2023 کے عنوان سے یہ بل قومی اسمبلی نے جنوری میں صرف 15 قانون سازوں کی موجودگی میں منظور کیا تھا۔

فروری میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ان ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی جہاں ان کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کا مقصد ’ایک مخصوص گروہ کو خوش کرنا‘ ہے اور انہیں ’پارلیمانی کارروائی کے اصولوں کو پورا کیے بغیر‘ منظور کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں ریاض پیرزادہ نے کہا تھا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کرے کیونکہ یہ اسلامی حکم کے ساتھ ساتھ آئینی ذمہ داری بھی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اقلیتیوں نے پارلیمانی امور میں ایک اچھے عمل کو نظر انداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جہاں اس عمل کا مقصد کسی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کے بجائے تکنیکی خرابیوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں