افغانستان: داعش کے حالیہ حملوں میں درجنوں پاکستانی ملوث ہیں، طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی) افغان طالبان کا بیان اسلام آباد کی جانب سے اپنی سرزمین پر ہونے والے خودکش حملوں میں افغانوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیے جانے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے داعش کے درجنوں عسکریت پسند ہلاک یا گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ یہ بات افغان طالبان کی طرف سے آج بدھ نو اگست کو کہی گئی ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں میں اضافے کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسندوں کی اکثر افغان مدد کرتے ہیں۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کے روز فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ گزشتہ سال افغانستان میں افغان افواج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 18 افراد پاکستانی شہری تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ”وہ داعشی (داعش کے ارکان) تھے اور وہ مختلف بم دھماکوں اور حملوں میں ملوث تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ درجنوں دیگر افغان جیلوں میں قید ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے یہ منگل کو دیر گئے جاری ہونے والے ایک بیان کے تناظر میں کہی جس میں کہا گیا تھا کہ ”خطے میں کسی بھی ملک کی سکیورٹی کی ناکامی‘‘ کیلئے طالبان حکام کو مؤرد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس کے لیے پاکستان کو مؤرد الزام ٹھہرانے کی بجائے افغان حکومت نے اپنے حفاظتی اقدامات کو بہتر کر لیا ہے۔‘‘

یہ پہلا موقع ہے جب طالبان حکام نے کھلے عام افغانستان میں حملوں کا الزام پاکستانیوں پر عائد کیا ہے۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حملے کرنے والے عسکریت پسند افغانستان کی پناہ گاہوں سے کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہیں افغان شہریوں کی مدد حاصل ہے۔

پیر سات اگست کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت علاقائی امن، و استحکام کے لیے نقصان دہ ہے اور اور دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔

طالبان حکام مسلسل اس عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کو بیرون ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے افغانستان کے سرکاری میڈیا نے وزیر دفاع کی ایک تقریر نشر کی تھی جس میں انہوں نے ایسے سکیورٹی یونٹوں کو متنبہ کیا تھا کہ افغانستان سے باہر لڑنا مذہبی طور پر ‘جہاد‘ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ جنگ ہے، جسے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ ممنوع قرار دے چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں