کیا موجودہ حالات میں ناموس صحابہ بل کی ضرورت ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستانی سینیٹ نے صحابہ کی توہین سے متعلق سزا میں اضافے کا بل منظور کر لیا۔ اس بل کی منظوری پربعض حلقے تحفظات اور خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ بل کیا ہے؟ اور موجودہ حالات میں کیا واقعی اس کی ضرورت تھی؟

یہ بل کیا ہے اور پہلے سے موجود قوانین میں کیا تبدیلیاں کی گئیں؟

فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2020ء کے عنوان سے یہ بل جماعت اسلامی سے وابستہ مولانا اکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ جیسا کہ اس کے عنوان سے واضح ہے یہ پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم سے متعلق ہے۔ دراصل جنرل ضیاء الحق نے 1980ء میں ایک آرڈی نینس کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 298 اے کا اضافہ کیا تھا جس کے ذریعے امہات المومنین، صحابہ اور اہل بیت کی توہین کرنے پر تین سال تک قید یا جرمانہ یا قید اور جرمانے دونوں کی سزائیں مقرر کی گئیں تھیں۔ 1985ء میں ضیا الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اپنے تمام اقدامات کو آئینی ٹچ دیا، اس طرح 298 اے آئین کا حصہ بن گیا اور آج تک برقرار ہے۔

بل کے متن سے واضح ہے کہ اس میں چار ترامیم کی گئی ہیں:

1: سزا تین سال سے بڑھا کر کم از کم دس سال یا عمر قید کر دی گئی۔

2: اسے قابل ضمانت سے ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا۔

3: عدالت سمن جاری کرنے کی بجائے ابتدا میں ہی وارنٹ گرفتاری جاری کرے گی۔

4: اس مقدمے کی سماعت مجسٹریٹ کی بجائے سیشن کورٹ میں ہو گی۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے اس بل کے محرک مولانا اکبر چترالی کہتے ہیں، ”یہ قانون بے جان اور اپاہج تھا جسے موثر بنانے کے لیے مجوزہ ترامیم ضروری تھیں۔ اب کسی کو صحابہ، اہل بیت، امہات المومنین اور خلفاء کے خلاف زہر اگلنے کی جرات نہیں ہو گی۔” قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایسا لگتا ہے موجودہ ترامیم کا بنیادی مقصد اس قانون کو قابل ضمانت جرم سے ناقابل ضمانت جرم میں تبدیل کرنا تھا۔”

قانونی اعتبار سے بعض نزاکتیں نظر انداز کی گئیں

شریعہ اکیڈمی کے سابق صدر، ممتاز قانون دان اور محقق ڈاکٹر مشتاق احمد کہتے ہیں کہ قانونی اعتبار سے بعض نزاکتیں نظر انداز کی گئیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”ضیا الحق کے دور میں ایرانی انقلاب، امریکہ اور ایران کی مخاصمت، سعودی عرب اور امریکہ کے پاکستان سے تعلقات اور افغان جنگ کے پس منظر میں اس قانون کا ایک سماجی جواز سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملزم ضابطے کی کارروائی میں ضمانت بطور حق طلب کر سکتا تھا اور اگر کوئی بہت ہی سنگین معاملہ نہ ہو تو اسے ضمانت پر رہا کرنے کا راستہ نہیں روکا جا سکتا تھا۔ آج سماجی اعتبار سے وہ صورتحال نہ ہونے کے باوجود قانون کی گرفت کہیں زیادہ سخت کر دی گئی۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ نئے بل میں اسے ناقابلِ ضمانت قرار دینے کا کہا گیا جس کا مطلب ہے محض استثنائی صورتوں میں ہی ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جا سکے گا۔ ہمارے سست رو عدالتی نظام کے پیش نظر یہ ذرا زیادہ سخت ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر مشتاق احمد کے بقول ”ایک نہایت اہم پہلو نظر انداز کیا گیا اور وہ ہے کہ جرم کے ساتھ ‘ارادے‘ اور ‘علم‘ کی شرط نہیں رکھی گئی۔ ‘مجرمانہ فعل‘ کے ساتھ اگر ‘مجرمانہ ذہن‘ کی شرط رکھی جاتی تو اس قانون کے غلط استعمال کے امکانات بہت حد تک کم ہو جاتے۔ اب خدشہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی مخالف کی کسی بھی بات کو لے کر پرچہ کٹوا سکتا ہے۔”

ہم نے مولانا اکبر چترالی سے ارادے اور علم کی شرط نہ رکھنے کا سبب پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے یہ قانون غیر موثر ہو جاتا، ہر شخص کہتا کہ میرا یہ ارادہ نہ تھا۔

اس بل کے بے دریغ استعمال کیے جانے کا خدشہ

پاکستان میں مختلف مکاتب فکر اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جن میں اہل تشیع بھی شامل ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ بل قانونی کلاشنکوف ہے جسے مخالفین پر بے دریغ استعمال کیا جائے گا۔” ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اس قانون کی پاکستان کو کیا ضرورت تھی؟ وہ کون سے ثمرات ہیں جو اس بل سے حاصل کیے جائیں گے؟، ”سوائے یہ کہ فرقہ واریت بڑھے گی، بے گناہ لوگ جیل جائیں گے، مخصوص فرقے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ملکی ہم آہنگی اور رواداری کی مجموعی فضاء زہر آلود ہو گی۔” وہ کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں اس پر بحث نہیں کی گئی، ”اتنے حساس موضوع پر قانون سازی کرتے ہوئے کچھ تو عقل سے کام لیا ہوتا، مشاورت کی جاتی۔”

دانش ور طبقہ تشویش میں مبتلا

پاکستان کے سماجی دانشور اور روشن خیال طبقہ اس بل کے حوالے سے مسلسل تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے تصور خدا، اور ثقافتی گھٹن جیسی معروف کتابوں کے مصنف ارشد محمود کہتے ہیں کہ پاکستانی سوسائٹی مذہبی لحاظ سے پہلے ہی دنیا بھر میں شدت پسند مشہور ہے، ”پاکستانی عوام کی اکثریت غربت زدہ اور نیم خواندہ ہے، یہاں توہین رسالت کے نام پر بے لچک سخت ترین قانون ہے، پولیس اور انصاف کا ادارہ ہجوم اور مذہبی پیشواؤں کے دباؤ میں آ کراکثر بے گناہوں کی زندگی تباہ کر چکا ہے، یا لوگ خود ہی ملزم ڈیکلیئر کرکے اگلے کو مار دیتے ہیں، وہاں مذہبی توہین کے قانون کو دیگر مقدس شخصیات تک توسیع دینا، معاشرے میں فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی منافرت کا سبب بنے گا، جو پاکستان کی سماجی ترقی کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔”

خیال رہے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بل قومی اسمبلی میں محض 15 قانون سازوں کی موجودگی میں منظور کیا گیا تھا۔ جس کے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر یہ ترامیم کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں