آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے، صدر عارف علوی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے واضح طور پر تردید کی ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ 2023 پر دستخط نہیں کیے۔ البتہ ان کے عملے نے ان کی مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔

اتوار کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے کیوں کہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ دونوں بل مقررہ وقت کے اندر واپس ارسال کر دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ صدر عارف علوی نے یہ احکامات تحریری طور پر دیے تھے یا یہ زبانی حکم تھا۔

سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر عارف علوی کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ دونوں بل واپس جا چکے ہیں۔ ان کے بقول انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ بل واپس جا چکے ہیں۔

صدر عارف علوی نے دعویٰ کیا کہ انہیں آج پتا چلا کہ ان کے عملے نے ان کی مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔

ان کے بقول جیسا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشااللہ معاف کر دے گا۔ لیکن “وہ ان لوگوں سے معافی مانگتے ہیں جو ان قوانین سے متا ثر ہوں گے۔”

’صدر کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینا چاہیے‘

دوسری طرف وزارتِ قانون و انصاف نے صدر علوی کی حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزارت کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے صدر کو ارسال کیا جاتا ہے تو صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں۔ یا اس بل کو منظور کر لیا جائے یا پھر مخصوص مشاہدات کے ساتھ یہ معاملہ دوبارہ پارلیمان کو بھیج دیا جاتا ہے۔

بیان کے مطابق آرٹیکل 75 میں کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے۔

وزارت قانون کے مطابق مذکورہ معاملے میں کوئی بھی ضروریات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے بجائے صدر نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوں کو بغیر کسی مشاہدے یا منظوری کے واپس کرنا آئین میں فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔

وزارتِ قانون کے مطابق اگر صدر کے پاس کوئی مشاہدہ تھا تو وہ اپنے مشاہدات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔ وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ تشویش ناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی عہدیداروں کو بدنام کرنے کا انتخاب کیا ۔ صدر کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔

ہم صدر عارف علوی کے ساتھ کھڑے ہیں: پی ٹی آئی

تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر واضح طور پر کہا ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے ہیں اس لیے ان بلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا ہ تھا کہ صدر نے اپنے عملے پر نافرمانی کا الزام لگایا ہے۔ متعلقہ عملے کے ارکان کے خلاف قانون کے مطابق صدر کے احکامات کی نا فرمانی کے لیے قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے کہ اس طرح کے حساس مسئلے کے ساتھ کیسے اور کیوں احکامات کی نافرمانی کی گئی۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ ’’ہم صدر عارف علوی کے ساتھ کھڑے ہیں۔”

https://twitter.com/OmarAyubKhan/status/1693242894537179293?t=4XBr9FUrpLcMVk6e4HQ7YA&s=19

صدر استعفیٰ دیں گے یا عہدے پر رہیں گے اس کا علم نہیں: نگراں حکومت

نگراں وزیرِ قانون احمد عرفان اسلم کے ہمراہ نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ صدر نے بلوں پر اعتراضات لگا کر واپس نہیں بھیجے۔

نگراں وزیرِ قانون احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ آئین میں بل واپس کرنے کی مدت 10 دن واضح طور پر موجود ہے۔ اگر اس پر عمل نہ ہو تو بل قانون بن جاتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ صدر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ترمیمی بل آٹھ اگست کو مل چکا تھا۔ جب کہ آرمی ترمیمی بل دو اگست کو ان کو موصول ہوا تھا۔ قبل ازیں یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہوئے تھے۔

نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ صدر استعفیٰ دیں گے یا وہ عہدے پر موجود رہیں گے اس کا علم نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت آئین کے تحت قائم ہے۔

’عارف علوی نے 100 سے بھی کم الفاظ میں وہ کر دیا جو پچھلی دہائی میں کوئی نہیں کر سکا‘

صدر عارف علوی کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد سیاست دان، صحافی اور دیگر شخصیات اس پر مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر تبصرے کر رہے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ یہ ناقابلِ یقین ہے ۔

اسحاق ڈار کے بقول صدر اپنا دفتر مؤثر طریقے اور رولز آف بزنس کے مطابق چلانے میں ناکام رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری کام فائلوں پر چلایا جاتا ہے اور اس طریقۂ کار پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا سوشل میڈیا پر بیان میں کہنا تھا کہ صدر عارف علوی نے 100 سے بھی کم الفاظ میں وہ کر دیا جو پچھلی دہائی میں کوئی نہیں کر سکا۔

فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ ایٹم بم پھٹ گیا۔ بہت سے لوگوں کو فوری طور پر ختم کرنے کے علاوہ اس کی مہلک شعاعیں آنے والے برسوں میں بھی ہلاک اور معذور کرتی رہیں گی۔

ان کے بقول اب کچھ بھی ہو جائے، صدر علوی کو بہت سے لوگوں کی طرف سے عزت مل گئی ہے۔

سینئر صحافی کامران خان کا کہنا ہے کہ صدر علوی کے عمل کا پہلا مؤثر رد عمل یہ ہو سکتا ہے کہ آج ہی نواز شریف، آصف زرداری، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن تاریخ میں شاندار نام درج کرائیں اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ 2023 اور پاکستان آرمی امینڈمینٹ بل 2023 کی دو ٹوک بھرپور حمایت کا بیان دیں اور صدر عارف علوی کے اس عمل پر جی بھر کر مذمت کریں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا نجی نیوز چینل ‘جیو نیوز’ پر صدر کے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس بل کے معاملے میں ایک فرد نہیں بلکہ تین سے چار افراد ملوث ہیں اور ان کے بقول جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں، وہ سب سویلین نہیں ہیں۔ جس سے آپ اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

صحافی نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان حقائق کق جاننا چاہیے جو اب صدر کی آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ پر دستخط کی کہانی بن چکی ہے۔

نسیم زہرہ کے بقول واضح طور پر صدر نے ان پر دستخط نہیں کیے۔ یہ منظر عام پر لانے سے پہلے کن حالات نے انہیں لگ بھگ 30 گھنٹوں تک خاموش رکھا؟

ان کے بقول امید ہے کہ وہ گرفتار نہیں ہوں گے اور اس پر بات کریں گے۔

صحافی سعدیہ افضال کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ صدر صاحب آپ پھر مستعفی کیوں نہیں ہو جاتے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں