ڈونلڈ ٹرمپ جیل جانے والے پہلے امریکی صدر بن گئے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جمعرات کے روز گرفتار کرکے جارجیا کی ایک جیل میں رکھا گیا لیکن دو گھنٹے بعد انہیں دو لاکھ ڈالر کے مچلکے پر رہا کر دیا گیا۔ ٹرمپ نے اسے ‘امریکہ کے لیے انتہائی شرمناک دن’ قرار دیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 کے صدارتی انتخابات کے دوران جارجیا ریاست کے نتائج پلٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جارجیا کی ایک جیل میں ‘مگ شاٹ’ (بطور مجرم تصاویر) لینے کے بعد دو لاکھ ڈالر بطور مچلکہ جمع کرانے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی سابق صدر کی جیل میں مجرموں کی طرح تصاویر اتاری گئی۔

فلٹن کاونٹی جیل کی طرف سے جاری تفصیلات کے مطابق انہیں قیدی نمبر پی او 1135809 نمبر دیا گیا۔ ان کی جسمانی جانچ بھی کی گئی اور جیل ریکارڈ میں ان کا قد چھ فٹ تین انچ، وزن 97 کلوگرام اور بالوں کا رنگ ‘سنہرا یا اسٹرا بیری‘ سے ملتا جلتا درج کیا گیا۔

جیل سے رہا کیے جانے کے فوراً بعد ٹرمپ ایئر پورٹ پہنچے جہاں سے وہ نیوجرسی کے لیے روانہ ہو گئے۔

ٹرمپ نے کیا کہا؟

نیوجرسی روانہ ہونے سے قبل ٹرمپ نے کہا، “یہاں جو کچھ ہوا وہ انصاف کا مذاق ہے، میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور ہر کوئی یہ جانتا ہے۔”

انہوں نے اپنے خلاف کارروائی کو انتخابی مداخلت قرار دیا اور کہا کہ ”ہم نے قطعاً کچھ غلط نہیں کیا، اور ہمارے پاس ایک ایسے انتخاب کو چیلنج کرنے کا حق ہے جو ہمارے خیال میں بد دیانتی پر مبنی ہے۔”

2024 کے انتخابات کے لیے رپبلکن صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں سب سے آگے ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ “امریکہ کے لیے شرمناک دن” ہے۔

اس موقع پر سابق صدر نے صحافیوں کے سوالات کا جواب
دینے سے انکار کر دیا۔

ٹرمپ پر جارجیا میں 2020 کے انتخابی نتائج کو 18 دیگر مدعا علیہان کے ساتھ ملی بھگت سے پلٹنے کی کوشش کا الزام ہے۔ ان میں ٹرمپ کے سابق چیف آف اسٹاف مارک میڈوز اور نیویارک کے سابق میئر روڈی جولیانی شامل ہیں۔ ان دونوں کو مچلکوں پر رہا کر دیا گیا ہے۔

جولیانی نے بدھ کے روز خودسپردگی کردی تھی جب کہ میڈوز نے جمعرات کو خودسپردگی کی۔ فلٹن کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ٹرمپ اور دیگر مدعا علیہان کو اپنا جرم قبول کرنے کے لیے جمعے کو آخری تاریخ مقرر کی تھی۔

گرفتاری سے قبل خود سپردگی

ٹرمپ اپنی گرفتاری دینے کے لیے مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے اٹلانٹا پہنچے تھے۔ اس سال یہ چوتھی مرتبہ ہے جب ٹرمپ کو خودسپردگی کرنی پڑی لیکن اٹلانٹا میں ان کی خو دسپردگی سابق تین بار سے مختلف تھی کیونکہ اس مرتبہ انہیں عدالت کے بجائے جیل میں خودسپردگی کرنی پڑی۔ اور یہ نیویارک یا واشنگٹن کے بجائے اٹلانٹا میں ہوا جسے 2024 کے انتخابات کے لیے ایک اہم میدان جنگ سمجھا جارہا ہے۔

دیگر مقامات پر خود سپردگی کرتے وقت ٹرمپ کو مجرموں کی طرح تصویریں نہیں اتروانی پڑی تھیں لیکن اٹلانٹا میں انہیں پولیس کے کیمرے کے سامنے کھڑا ہونا پرا۔

امریکی تاریخ میں کسی بھی سابق صدر پر فوجداری جرائم کا الزام نہیں لگا البتہ ٹرمپ چار مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان پر مجموعی طور پر 91 الزامات ہیں۔

ان پر نیو یارک میں پورن فلموں کی ایک اداکارہ کو خاموش کروانے کے لیے مبینہ طور پر رقم کی ادائیگی، فلوریڈا میں اہم خفیہ سرکاری دستاویزات کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے اور واشنگٹن میں 2020 کے انتخابات میں سازش کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد ہو چکی ہیں۔

سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش

ٹرمپ نے مگ شاٹ کو اپنے ہی ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ‘انتخابی مداخلت‘ کے عنوان کے ساتھ اور بعد میں اپنی انتخابی مہم کی ویب سائٹ کی لنک کے ساتھ بھی پوسٹ کیا۔

جیل یا عدالت جانے کے ان واقعات کو ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے حصے کے طورپر استعمال کیا ہے۔ ایسے مواقع پر ان کے حامی بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ ان میں بہت سے انتہائی دائیں بازو کے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی بڑی تعداد میں وہاں موجود ہوتی ہے۔

اس طرح کی مہم کے ذریعے ٹرمپ الیکشن کے لیے فنڈ بھی جمع کر رہے ہیں اور ان کے حامی یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے رہنما کے خلاف مقدمات سیاسی سازش کا حصہ ہیں اور ان کا مقصد ٹرمپ کو دوبارہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے سے روکنا ہے۔

اٹلانٹا میں خودسپردگی سے قبل ٹرمپ کی تشہیری ٹیم نے ان کی طرف سے پیغام نشر کیا، “میں آپ کو ٹرمپ فورس ون سے یہ پیغام دے رہا ہوں، میں اٹلانٹا جارہا ہوں، جہاں مجھے گرفتار کیا جائے گا، جب کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں