چین کے نئے نقشے میں بھارت کے علاقوں پر دعویٰ، نئی دہلی کا احتجاج

نئی دہلی + بیجنگ (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت نے چین کی جانب سے جاری کیے گئے اپنے نئے نقشے میں اُن علاقوں کو شامل کرنے پر بیجنگ سے شدید احتجاج کیا ہے جن پر بھارت بھی اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔

بیجنگ نے سال 2023 کا ’اسٹینڈرڈ میپ‘ جاری کیا ہے جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ واقع علاقے ’اکسائی چن‘ اور شمال مشرقی بھارتی ریاست ’اروناچل پردیش‘ کو چین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں چین کے خودمختار علاقے تبت کے ساتھ واقع ہیں۔

اکسائی چن پر کئی دہائیوں سے چین کا کنٹرول ہے۔ نئی دہلی اس علاقے کا دعویدار ہے جب کہ اروناچل پردیش بھارت کی ریاست ہے۔

چین کی وزارتِ قدرتی وسائل نے پیر کو اپنی ویب سائٹ پر نیا نقشہ جاری کیا تھا۔ یہ نقشہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں ہی دونوں ممالک نے سرحدی تنازعات پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

چین کے اس نئے نقشے میں تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کو بھی بیجنگ کے زیرِ انتظام علاقے قرار دیا گیا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ بھارت نے چین کے اس نام نہاد ’اسٹینڈرڈ میپ‘ پر سفارتی ذرائع سے بیجنگ سے شدید احتجاج کیا ہے جس میں بھارت کے کئی علاقوں پر دعویٰ کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان جنوبی افریقہ میں برکس اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک نے کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

یہ نقشہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جی 20 ممالک کا اجلاس نئی دہلی کی میزبانی میں نو اور دس ستمبر کو ہو رہا ہے۔ ممکنہ طور پر اس اجلاس میں دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ چینی صدر شی جن پنگ بھی شریک ہوں گے۔

چین اور بھارت دونوں جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ہیں۔ ان کے درمیان شمال مشرق میں لداخ سے اروناچل پردیش کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی طویل غیر واضح سرحد ہے۔ یہ سرحد کوہ ہمالیہ کے غیر آباد، صحرائی اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔

ہندوستان جس وقت برطانیہ کی نو آبادیات تھا اس وقت یہ معاملہ طے نہیں ہو سکا تھا۔ 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد بھی بیجنگ اور نئی دہلی سرحدی تنازع حل نہیں کر سکے۔

ان سرحدی تنازعات کی وجہ سے 1962 میں دونوں ممالک میں جنگ ہو چکی ہے۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اس جنگ میں چین نے بھارت کے لگ بھگ 38 ہزار کلومیٹر کے رقبے پر قبضہ کیا جن میں اسکائی چن بھی شامل ہے۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین نے جس علاقے پر قبضہ کیا ہے وہ اس کے علاقے لداخ کے خطے کا حصہ ہے۔ دوسری جانب چین زور دیتا ہے کہ اکسائی چن قدیم چینی سلطنت کا حصہ تھا۔

بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ شمال مشرق میں بھارت نے چین کے لگ بھگ 90 ہزار کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کیا ہے جس میں اروناچل پردیش شامل ہے، جس کو چین جنوبی تبت قرار دیتا ہے۔

دوسری جانب بھارت اروناچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اس پر کنٹرول بھی نئی دہلی کا ہی ہے۔

رواں برس اپریل میں چین نے اس خطے میں لگ بھگ 11 علاقوں کے نام تبدیل کیے تھے۔ دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ نے چین کے دعوے کو مسترد کیا تھا اور ترجمان باگچی نے کہا تھا کہ اروناچل پردیش بھارت کا لازم حصہ تھا ، ہے اور رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں