شام میں داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا انتباہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکی فوج نے شام کے صوبے دیرالزور میں امریکی حمایت یافتہ دو حریف گروپوں کے درمیان لڑائی بند کرنے کے لیے کہا ہے اور خبردار کیا کہ اس لڑائی سےاسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کے پھر سے سر اٹھانے کا خدشہ ہے۔

شام کے تیل کی دولت سے مالامال مشرقی دیر الزور صوبے میں پیر کے روز سے شروع ہونے والی یہ لڑائی جس میں کم از کم 40 افراد ہلاک اور درجنوں دوسرے زخمی ہوئے ہیں، برسوں کے دوران ہونے والی بد ترین لڑائی ہے۔

مشرقی شام وہ علاقہ ہے جہاں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں مدد دینے کے لیے سینکڑوں امریکی فوجی سن 2015 سے متعین ہیں۔

یہ جھڑپیں کرد قیادت والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز اور ان کی سابقہ اتحادی عرب قیادت والی دیر الزور ملٹری کونسل اور کچھ علاقائی عرب قبائلیوں کے درمیان ہو رہی ہے، جو ان کے حمایتی تھے۔

عراق سے ملنے والی سرحد کے ساتھ ساتھ علاقے کے مختلف حصوں میں جمعرات کے روز کچھ جھڑپیں ہوئیں اور اطلاعات کے مطابق دونوں فریق تازہ کمک میدان میں لا رہے ہیں۔

سیرین ڈیمو کریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف اور کونسل نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ احمد خبیل جو ابو خوالہ کے نام سے مشہور ہے، اب دیر الزور ملٹری کونسل کی کمان نہیں کرے گا۔ انہیں اور چار دوسرے ملیشیا لیڈرز کو منشیات کے کاروبار سمیت متعدد جرائم اور خلاف ورزیوں پر برطرف کردیا گیا تھا۔

تازہ ترین جھڑپوں نے اس بارے میں بھی تشویش پیدا کردی ہے کہ مشرقی شام میں ایس ڈی ایف اور اس کے اتحادیوں میں مزید تقسیم ہو سکتی ہے، جہاں ایک زمانے میں اسلامک اسٹیٹ کا بڑے علاقے پر کنٹرول تھا اور جہاں انتہا پسند گروپ کے جنگجو اب بھی کبھی کبھار حملے کرتے رہتے ہیں۔

مشرقی شام میں کم از کم نو سو امریکی فوجی متعین ہیں۔ جن کے ساتھ نامعلوم تعداد میں کانٹریکٹز بھی ہیں۔ اور وہ اسلامک اسٹیٹ کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے ایس ڈی ایف کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں

شام میں 2011 میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف ہونے والا احتجاج بہت جلد شامی حکومت اور حکومت مخالف باغی گروپوں کے درمیان ایک بھرپور جنگ میں بدل گیا تھا۔ شامی حکومت کو ایران اور روس کی جب کہ حکومت مخالف گروپوں کو امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اٹلی سمیت اس کے یورپی اتحادیوں اور سعودی عرب، ترکی، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسی علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔

اس صورت حال سے اسلامک اسٹیٹ نے بھی فائدہ اٹھایا اور بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔

شام کی اس جنگ میں 30 ہزار سے زیادہ بچوں اور اور 16 ہزار سے زیادہ عورتوں سمیت، جنگ کے فریقوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد دو لاکھ 30 ہزار سے کم نہیں ہے۔ جب کہ شام کے اندر 68 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ پناہ گزیں بن کر اس وقت دوسرے ملکوں کےکیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ہر چند کہ حالات اب اتنے خراب نہیں لیکن اتنے بہتر بھی نہیں ہوئے ہیں کہ پناہ گزیں لوٹ سکیں۔ بے گھر افراد آباد ہو سکیں اور لوگ سکون سے رہ سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں