افغان طالبان اور پاکستان کے مابین تناؤ میں اضافہ، ایرانی حکام کی ملاقاتیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) پاک اور افغان افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں اور طورخم سرحد کی بندش سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان ایک سینیئر پاکستانی اہلکار آصف درانی نے تہران میں ایرانی وزیر خارجہ اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے افغانستان کے لیے پاکستانی وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی آصف درانی کی تہران میں وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر اعلیٰ ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم ایرانی بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ایلچی نے افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی کی حالات اور پیش رفت سے متعلق اپنا جائزہ پیش کیا۔

بیان کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان پورے خطے اور افغانستان میں ہونے والی پیش رفت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تہران اور اسلام آباد کے درمیان جاری مشاورت سے خطے میں امن اور سلامتی کے قیام میں مدد ملے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان میں درپیش چیلنجز کے حل کے لیے پڑوسی ملکوں کو شامل کرنے والے علاقائی اقدامات کی حمایت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ایرانی بیان کے مطابق آصف درانی نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایران کے ساتھ تعاون کے حوالے سے پرعزم ہے۔

طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے مابین تناؤ میں اضافہ

یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا، جب افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے درمیان شدید تناؤ پاپا جاتا ہے۔ افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر پچھلے دنوں ہونے والی جھڑپوں اور اس کے بعد سرحدی گزر گاہ طورخم کے بند کردینے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھی ہے۔

6 ستمبر سے ہی طورخم سرحدی گزرگاہ بند ہے۔ دونوں فریق اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ہیں۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے پچھلے دنوں جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر سرحد کو بند کر دینے کا فیصلہ ایسے اقدامات ہیں، جو ”ہمسایوں کے طور پر اچھے طرز عمل‘‘ کے منافی ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی گزرگاہ سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اطراف کے مابین فائرنگ کے تبادلے کے بعد بند کی گئی تھی۔ ساتھ ہی اسلام آباد کئی مرتبہ کابل میں موجودہ ملکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے بند کروائے۔

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ کالعدم گروپ ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان کی جانب سے ٹھوس کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کی بندش پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں