اننت ناگ میں انڈین فوجی کرنل اور میجر کی ہلاکت راولاکوٹ میں ابوقاسم کشمیری کے قتل سے کیسے جڑی ہے؟

سری نگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) آٹھ ستمبر کی صبح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولا کوٹ شہر کی مسجد القدس میں محمد ریاض نامی شخص کو نماز فجر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس واقعے کے ٹھیک پانچ دن بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اننت ناگ ضلع کے خوبصورت پکنک مقام کوکر ناگ میں مسلح شدت پسندوں نے انڈین فوج کے ایک کرنل، ایک میجر اور جموں کشمیر پولیس کے ایک ڈی ایس پی کو ہلاک کر دیا۔

بظاہر ان دونوں واقعات میں کوئی قدر مشترک نہیں۔

لیکن راولا کوٹ میں قتل ہونے والے محمد ریاض کو ’ابو قاسم کشمیری‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا جن پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح شدت پسندوں کو فنڈز فراہم کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ محمد ریاض عرف ابوقاسم کشمیری کا تعلق انڈین کشمیر کے پونچھ ضلع سے تھا لیکن وہ طویل عرصے سے پاکستانی کشمیر میں ہی مقیم تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد ریاض کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعوی کیا تھا کہ محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے نہیں تھا۔

تاہم بدھ کو اننت ناگ میں ہونے والے واقعے کے بعد کشمیر میں تین سال سے سرگرم کالعدم مسلح گروپ ’دی ریزِسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں ایک ’سابق جنگجو‘ کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لیے کی گئی۔

بدھ کو اننت ناگ میں کیا ہوا؟

بدھ کے دن اننت ناگ میں انڈین فورسز نے مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد ایک مشترکہ آپریشن کیا تھا۔

اسی دوران ہونے والے حملے میں انڈین آرمی کے کرنل منپریت سنگھ اور میجر آشیش ڈھوناک کے علاوہ کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی ہُمایوں مزّمل بٹ ہلاک ہو گئے۔

ہُمایوں بٹ کے والد غلام حسن بٹ کشمیر پولیس سے آئی جی کے طور ریٹائر ہو چکے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کوکر ناگ کے گھڑول گاؤں میں ہونے والی اس جھڑپ کے بعد بڑے پیمانے پر کارروائی جاری ہے جس کے دوران انڈین فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد لی جا رہی ہے۔

انڈین فوج اور پولیس کا دعوی ہے کہ کارروائی کے دوران ’دو شدّت پسندوں کو محصور کر لیا گیا ہے جن میں ٹی آر ایف کے عُزیر خان بھی شامل ہیں۔‘

عُزیر خان کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے سال جولائی میں روپوش ہو کر ٹی آر ایف میں شامل ہوئے تھے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں شدت پسندی میں اضافہ؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ اور راجوری میں گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران مسلح شدّت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔

منگل کے روز ہی راجوری کے نارلا گاؤں میں جھڑپ کے دوران روی کمار نامی فوجی ہلاک ہو گیا جبکہ انڈین فوج نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران دو شدت پسندوں کو طویل کارروائی کے دوران ہلاک کیا گیا۔

راجوری میں ہوئے حملے کے بارے میں بھی انڈین فوج کا کہنا تھا کہ اس میں چند سال قبل ہی قائم ہوئی ’پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس‘ (پی اے ایف ایف) کا ہاتھ ہے۔

پی اے ایف ایف نے بھی سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کوکر ناگ حملے کے لیے ٹی آر ایف کو مبارکباد دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’یہ حملہ محمد ریاض عرف ابو قاسم کے قتل کا انتقام تھا۔‘

ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف کیا ہیں؟

2019 اگست میں انڈیا کی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے دو الگ الگ مرکزی انتظام والے خطوں میں تقسیم کرنے کے واقعہ تک کشمیر میں مسلح طور پر حزب المجاہدین، لشکر طیبہ اور جیش محمد نامی تنظیمیں سرگرم تھیں۔

تاہم 2019 میں ہی اچانک سے شدت پسند کارروائیوں کی ذمہ داری ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف نے لینا شروع کر دی۔

پولیس کے مطابق ٹی آر ایف کشمیر وادی میں جبکہ پی اے ایف ایف جموں کے راجوری اور پونچھ میں زیادہ سرگرم ہے۔

مارچ 2023 میں انڈین پارلیمنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں انڈیا کی وزارت داخلہ نے ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ ’ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف کو انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت دہشت گرد گروپ قرار دیا گیا ہے جو اغوا اور دیگر پرتشدد وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔‘

جموں کشمیر پولیس کے ایک سینئیر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2016 کے بعد عالمی دہشت گردی سے متعلق ممالک کو جوابدہ بنانے والے ادارے ’فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا اور اسے بلیک لِسٹ ہونے کا خطرہ تھا۔‘

ان کا دعوی تھا کہ ’کشمیر میں مسلح تشدد کو مقامی رنگ دینے اور اسے مذہبی تحریک کے بجائے مقامی مزاحمت کے طور پراجیکٹ کرنے کے لیے لشکر طیبہ ٹی آر ایف کے طور اور جیش محمد پی اے ایف ایف کے طور دوبارہ سرگرم ہوئے۔‘

گزشتہ تین سال کے دوران کشمیر اور جموں کے راجوری۔پونچھ خطوں میں مختلف حملوں کی ذمہ داری ٹی آر ایف نے قبول کی ہے۔

اسی سال 5 اگست کو کولگام ضلع کے ہالن منزگام علاقے میں ایسے ہی ایک حملے میں انڈین آرمی کے تین فوجی مارے گئے تھے۔

2020 مارچ میں شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبہ میں بھی ایسا ہی حملہ ہوا تھا جس میں فوج کا ایک کرنل، ایک میجر اور پولیس کا ایک سب انسپکٹر مارے گئے۔

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ بدھ کو کوکر ناگ میں ہونے والا حملہ ہندوراہ کے بعد سب سے بڑا حملہ ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں شدت پسندی کے خاتمے کے دعووں کا کیا ہوا؟

فوج، پولیس اور سِول انتظامیہ گزشتہ تین برس سے مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے مسلح شدت پسندی کو بھی ختم کر دیا ہے اور ’جموں کشمیر ترقی، امن اور خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔‘

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سے لیکر کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا تک، سبھی نے گزشتہ ہفتوں کے دوران پچھلے سال وادی کی سیر پر آئے ڈیڑھ کروڑ سیاحوں کی آمد کو امن کا سب سے بڑا ثبوت قرار دیا تھا جبکہ نائب گورنر سنہا نے اس سال دو کروڑ سے زیادہ سیاحوں کی آمد کا دعویٰ کیا ہے۔

جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نےحالیہ دنوں سوپور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ’مجموعی طور پر جموں کشمیر کے سبھی علاقوں میں امن پایا جاتا ہے اور اب دہشت گردی نہیں بلکہ تجارت اور تعلیم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘

انڈین فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل اوپیندر دِویدی نے کوکر ناگ کی جھڑپ سے صرف دو روز قبل ایسا ہی دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’اس سال 46 شدت پسند مارے گئے جن میں غیر ملکی شدت پسندوں کی تعداد 37 تھی۔‘

ان اعداد و شمار سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مقامی نوجوان اب شدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہو رہے۔

لیفٹنٹ جنرل اوپیندر دِویدی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس صورتحال سے پریشان ہو کر ایل او سی پر دراندازی کروا رہا ہے۔‘ تاہم پاکستان انڈیا کی جانب سے دراندازی کے الزام کو مسترد کرتا رہا ہے۔

ایک ریٹائرڈ پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 2019 میں جب آرٹیکل 370 ہٹایا گیا تو ساتھ ہی بڑے پیمانے پر مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور اس میں شک نہیں کہ یہ آپریشن کامیاب رہے اور اب تک 500 سے زیادہ شدت پسند مارے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’مظاہرے اور پتھراؤ اب ماضی کی باتیں ہیں۔ اب تو لوکل لڑکوں کی تعداد بھی کم ہے۔ لیکن اب شدت پسندی مکمل طور پر انڈر گراؤنڈ ہو گئی ہے اور یہ سکیورٹی فورسز کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔‘

پولیس چیف دلباغ سنگھ کے مطابق پچھلے سال 65 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 17 کو گرفتار کیا گیا۔

سرکاری اعداد و شمار سے تو لگتا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی ہوئی ہے اور ہتھیار اُٹھانے پر اب بہت کم مقامی نوجوان آمادہ ہیں، لیکن کیا اس کو شدت پسندی کا خاتمہ کہہ سکتے ہیں؟

کوکر ناگ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور انڈین پارلیمنٹ کے رکن فاروق عبداللہ نے جمعرات کو اپنے ردعمل میں کہا کہ ’شدت پسندی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں سخت فوجی اقدامات کے ساتھ ساتھ اعتراف کرنا ہوگا کہ صرف بات چیت سے ہی مستقل امن قائم ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم بات چیت کے بغیر امن حاصل نہیں کر سکتے۔ دشمن کے ساتھ ہمیشہ صرف لڑائی کرنے سے تباہی ہوتی ہے، یوکرین اس کی بہترین مثال ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں