کینیڈین سکھ رہنما کے قتل کے خلاف پاکستان میں سکھوں کا مظاہرہ

لاہور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان کی سکھ برادری نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

لاہور، ننکانہ صاحب اور کرتار پور سے آئے ہوئے سکھوں نے بدھ کے روز لاہور پریس کلب کے باہر کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر بھارتی حکومت، بھارتی خفیہ ایجنسی اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے۔

سکھ اس موقعے پر ‘ظالموں جواب دو خون کا حساب دو’ اور ‘ریاستی دہشت گردی نامنظور’ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ رنگ برنگی پگڑیوں والے سکھوں کا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے کے لئے وہاں راہگیروں کی بڑی تعداد بھی جمع ہو گئی اور عام لوگ بھی سکھ رہنماوں کی تقاریر سنتے رہے۔

اس موقعے پر میڈیا کے نمائندوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سابق ممبر پنجاب اسمبلی اور پاکستانی سکھوں کے ایک رہنما رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا تھا کہ کنیڈا میں بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں ایک سکھ رہنما کے قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے دنیا بھر میں موجود سکھوں کے دل دکھے ہیں اور وہ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ”ہم کئی دہائیوں سے دنیا کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان سمیت کئی ملکوں میں دہشت گردی اور مداخلت کر رہا ہے لیکن ہماری آواز نہیں سنی گئی۔ اب کنیڈا کے وزیراعظم کی طرف سے اس قتل میں بھارتی ہاتھ کے ملوث ہونے کے دوٹوک اعلان نے بھارتی سیکولرازم پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔ ‘‘

سکھ رہنما کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ایک سکھ رہنما کے قتل سے ہمارے حوصلے ٹوٹ جائیں گے یا “ہم اپنی جدوجہد چھوڑ دیں گے بلکہ ان کے الفاظ میں دنیا بھر میں یہ واقعہ سکھ کمیونٹی کو متحد اور یکسو کرنے کا باعث بنا ہے اور اب خالصتان کی موومنٹ کو مزید تقویت ملے گی۔”

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت خالصتان ریفرنڈم سے خوفزدہ ہے اور اسی لیے وہ سکھوں کا ٹارگٹ کلنگ کررہی ہے لیکن خالصتان کے قیام کے لیے پرامن ،جمہوری جدوجہد سکھوں کا بنیادی حق ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے سرکاری حلقے خالصتان کے نام پر سکھ ریاست کے قیام کی بات کرنے والے سکھوں کو علیحدگی پسند گردانتے ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔

رمیش سنگھ اروڑہ کے مطابق بھارت پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں اور افغانستان کے راستے سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے ۔ مودی سرکار ایک طرف اپنے ملک میں اقلیتوں کو زیادتیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں دوسری طرف ان کے خلاف دیگر ملکوں میں بھی غیر قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ”دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کنیڈا کے سکھ کے قتل کا نوٹس لینا چاہئیے اور بھارت پر دباو ڈالا جانا چاہیئے کہ وہ آئندہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے۔”

سکھ رہنما نے کنیڈا کے وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو بھی بھارتی مداخلت کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھانا چاہئیے۔ ‘‘

ایک اور سکھ رہنما اور سابق ممبر پنجاب اسمبلی سردار مہندر سنگھ پال نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ عالمی برادری بھارت کو اقلیتوں کے خلاف کام کرنے سے روکے۔ اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کا نوٹس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جب سے مودی حکومت آئی ہے، سکھوں اورمسلمانوں سمیت دیگراقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا تھا کہ کنیڈین وزیراعظم کی طرف سے سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کی طرف انگلی اٹھانا اور آسٹریلیا، امریکہ، اور برطانیہ کی طرف سے کنیڈا کی حمایت میں بیانات سے وزیراعظم مودی کی سبکی ہوئی ہے۔

ان کے خیال میں اب صورتحال کو نارمل کرنے میں وقت لگے گا۔ نائن الیون کے بعد بھارت ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا دیتا تھا اب اس واقعے کے بعد پاکستان کو بھی اپنا سکور سیٹل کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خالصتان تحریک بھارت کے لئے کوئی نمایاں خطرے کے طور پر باقی نہیں رہی ہے۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ سکھ رہنما کے قتل کے اس واقعے نے جی ٹوئنٹی اور چاند کو مسخر کرنے کی بھارتی خوشیوں کو گہنا دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں