پولینڈ یوکرین کو مزید اسلحہ فراہم نہیں کرے گا

وارسا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ایل یو ایس اے/ڈی پی اے) پولینڈ کا کہنا ہے کہ وہ کییف کے ساتھ اناج کی درآمد پر پابندی کے تنازع کے باعث یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر رہا ہے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم ماٹیوس موراویزکی نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا ملک اب یوکرین کو اسلحہ مہیا نہیں کرے گا اور اس کے بجائے اپنے دفاع پر توجہ دے گا۔

ان کا یہ بیان وارسا کی جانب سے کییف کے سفیر کو طلب کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم نے کیا کہا؟

موراویزکی نے کہا، “ہم اب یوکرین کو ہتھیار فراہم نہیں کر رہے، کیونکہ اب ہم پولینڈ کو مزید جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”یوکرین روس کے وحشیانہ حملے کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے اور میں اس صورتحال کو سمجھتا ہوں لیکن ہم اپنے ملک کا دفاع کریں گے۔‘‘

انہوں نے یہ بیان ایک رپورٹر کے اس سوال کے جواب میں دیا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا وارسا حکومت خوراک کی برآمدات پر عدم اتفاق کے باوجود کییف کی حمایت جاری رکھے گی۔

پولینڈ نے یوکرین کے سفیر کو کیوں طلب کیا؟

قبل ازیں بدھ کے روز پولینڈ نے کہا تھا کہ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے بیان پر کییف کے سفیر کو طلب کیا ہے۔

اناج کی برآمدات کے بارے میں بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا تھا کہ کچھ ممالک نے یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا فرضی اظہار کیا۔ وارسا نے اس بیان کو “پولینڈ کے بارے میں غیر منصفانہ” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ ان کے ملک نے جنگ کے ابتدائی دنوں سے ہی یوکرین کی حمایت کی ہے۔

پولینڈ نے مگ 29 اور لیپرڈ ٹینکوں جیسے فوجی سازوسامان کی یکطرفہ فراہمی اور غیر ملکی اتحادیوں کو پولینڈ کی سرحد کے ذریعے یوکرین میں اسلحہ ذخیرہ کرنے اور منتقل کرنے کی اجازت دے کر یوکرین کو اسلحے کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ نیٹو کا پہلا رکن ملک تھا جس نے اس سال مارچ میں یوکرین کو لڑاکا طیاروں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا اور اپریل کے اوائل میں اس کی فراہمی شروع کی تھی۔ پولینڈ تقریبا دس لاکھ یوکرینی پناہ گزینوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔

وارسا اور کیف کے درمیان حالیہ دنوں میں پولینڈ کی جانب سے اپنے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے یوکرین کے اناج کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

یوکرین پر روسی حملے کے بعد بحیرہ اسود کے بحری راستے بند ہو گئے تھے۔ بعد ازاں روس نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس میں یوکرین سے سمندری راستوں کے ذریعے برآمدات کی اجازت دی گئی تھی لیکن جولائی میں روس اس سے دستبردار ہوگیا تھا۔

اس فیصلے کے نتیجے میں یورپی یونین یوکرینی اناج کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ روٹ اور برآمد کنندہ بن گئی ہے۔

یورپی یونین نے مئی میں بلغاریہ، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ اور سلوواکیا کو درآمدات کو محدود کرنے کی اجازت دی تھی، جس کا مقصد ان ممالک کے کسانوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ مقامی کسانوں کی شکایت تھی کہ درآمدات کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ان اقدامات کا مطلب یہ تھا کہ مصنوعات پانچ ممالک سے گزر سکتی ہیں لیکن مقامی منڈیوں میں فروخت نہیں کی جائیں گی۔

تاہم یورپی کمیشن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ درآمدی پابندی ختم کر رہا ہے اور دعویٰ کیا تھا کہ ‘یوکرین کی سرحد سے متصل پانچ رکن ممالک میں فروخت سے متعلقہ مسائل ختم‘ ہو گئے ہیں۔

پولینڈ، ہنگری اور سلوواکیا نے فوری طور پر کہا تھا کہ وہ اس پر عمل نہیں کریں گے۔ جبکہ یوکرین نے کہا کہ وہ اس بارے میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت درج کرائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں