چینی صدر کی اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد سے ’تاریخی ملات‘

بیجنگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) چین کے صدر شی جن پنگ نے شام کے رہنما بشار الاسد کے ساتھ ایک ’غیر معمولی ملاقات‘ کی ہے۔ انہوں نے مغرب سے شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ تباہ حال اس ملک کی تعمیر نو میں مدد کی پیش کش بھی کی ہے۔

چینی شہر ہانگژو میں ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات نے صدر اسد کی عالمی سطح پر واپسی کی مہم کو تقویت بخشی ہے جبکہ چین اس طرح مشرق وسطیٰ میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بیجنگ حکومت پہلے ہی سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی میں مصروف ہے۔

چینی سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق صدر شی جلد ہی ‘چین شام اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کے قیام کا اعلان کریں گے۔ اس حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں لیکن یہ کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات ‘تاریخ کی نئی بلندیوں‘ کو چھوئیں گے۔

صدر اسد جمعرات کو چین پہنچے تھے اور وہ آج ہانگژو میں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ سن دو ہزار چار کے بعد صدر اسد کا یہ پہلا دورہ چین ہے۔ چین صدر اسد کی اقوام متحدہ میں بھی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

چینی میڈیا میں جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے، ”چین شام کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف ہے اور تمام متعلقہ ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ شام کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں ختم کر دیں۔‘‘

چینی صدر نے اپنے ہم منصب کو یہ بھی بتایا ہے کہ چین شام کی تباہ شدہ معیشت کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسے مقامی سطح پر درپیش بدامنی کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا جبکہ موجودہ تعلقات کو ”اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘ میں اپ گریڈ کر دیا جائے گا۔

شام نے سن 2022 میں چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ مئی کے دوران اسے عرب لیگ میں دوبارہ شامل کر لیا گیا تھا۔ شام کو اپنے بنیادی ڈھانچے اور صنعت کی تعمیر نو کے لیے اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی سنگین معاشی صورتحال کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر جنوبی شام میں احتجاجی مظاہرے سر اٹھا رہے ہیں، جن میں ہجوم نے صدر اسد کی برطرفی کا مطالبات دہرائے ہیں۔

تاہم مبصرین کے مطابق چینی کمپنیاں شام میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گی کیوں کہ شام کے خلاف امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے اپنے اثاثے منجمد ہو سکتے ہیں۔

تاہم یونیورسٹی آف وینس میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر میتھیو لاگرینزی کا کہنا ہے،” چین دور سے ایک مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ اس نے ایران اور سعودی عرب کے باہمی معاہدے کے ذریعے کیا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں