سیالکوٹ: احمدیوں کی تاریخی عبادت گاہ کے مینار گرانے کیلئے 12 ربیع الاول تک کا الٹی میٹم

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں دو مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد نے احمدیوں کی تاریخی عبادت گاہ کے میناروں کو منہدم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ کو بارہ ربیع الاول (29ستمبر )تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)اور سنی تحریک نے جمعے کو سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ کلاں میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے میناروں کو گرانے کے سلسلے میں ایک ریلی نکالی اور دھمکی دی کہ اگر پولیس اور انتظامیہ نے میناروں کو نہ گرایا تو وہ خود انہیں گرا دیں گے۔

ڈسکہ کلاں میں بسنے والی احمدی برادری کے مطابق اُن کی یہ عبادت گاہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے جسے پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ خاں نے قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کرایا تھا۔

ایک مقامی احمدی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں، وہ خود بھی امن سے رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی آئین و قانون کے مطابق رہنا چاہیے۔

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کے مطابق مقامی پولیس اور انتظامیہ نے مقامی مذہبی تنظیموں کے مطالبے پر جماعت احمدیہ کو ڈسکہ کلاں میں قائم عبادت گاہ کے مینار منہدم کرنے کے لیے 21 ستمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی جسے جماعت نے متفقہ طور پر ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

ان کے بقول جماعت احمدیہ خود سے اپنی کسی بھی عبادت گاہ کو نہیں گرائے گی جب کہ اس مقصد کے لیے مذہبی تنظیموں نے جمعے کو ریلیاں بھی نکالی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عامر محمود نے دعویٰ کیا کہ مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ مذہبی تنظیموں کے سامنےبے بس نظر آتی ہے۔

وائس آف امریکہ نے ٹی ایل پی اور سنی تحریک کی مرکزی قیادت سے رابطہ کیا جن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

واضح رہےپاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے جب کہ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مساجد کی طرز پر موجود میناروں کو توڑا جا رہا ہے۔

رواں ماہ لاہور ہائی کورٹ نے اسلامی طرز تعمیر کی طرح قادیانیوں کی عبادت گاہ بنانے کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ مینار مسلمانوں کی مذہبی علامت ہے لیکن یہ ایک تعمیراتی فیچر بھی ہے۔

سیالکوٹ پولیس کے ترجمان انسپکٹر خرم شہزاد نے وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے کہا کہ ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے مینار گرانے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ تاہم اِس پر تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے میناروں کو گرانے کا فیصلہ مقامی انتظامیہ کرے گی۔

خرم شہزاد کے مطابق گزشتہ روز نمازِ جمعہ کے بعد مقامی مذہبی تنظیموں نے شہر میں ریلی نکالی تھی جو پرامن طور پر منتشر ہو گئی تھی۔

ضلع سیالکوٹ انتظامیہ کے ترجمان نثار احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ عدنان محمود اعوان نے ڈسٹرکٹ امن کمیٹی اور ڈسٹرکٹ انٹیلی جینس کمیٹی کے دو الگ الگ اجلاس ہفتے کو طلب کیے ہیں جس کے دوران ضلع میں امن و امان کی صورتِ حال پر گفتگو ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ضلع میں صورتِ حال مکمل طور پر قابو میں ہے اور امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہے۔

احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ

جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود نے دعویٰ کیا ہےکہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ضلع سیالکوٹ کے اسسٹنٹ کمشنر نے مقامی پولیس کی مدد سےسیالکوٹ میں احمدیوں کے قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے کتنبوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

اُن کے بقول مقامی انتظامیہ اور مقامی پولیس نے 70 سے 74 قبروں سے کتبوں کو توڑ دیا ہے۔

سیالکوٹ پولیس نے جماعت احمدیہ کے اِس دعوے کی تردید کی ہے۔ سیالکوٹ پولیس کے ترجمان کے مطابق جماعت احمدیہ کی جانب سے اُن کی قبروں کی بے حرمتی کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

ترجمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا کام امن وامان کی صورتِ حال کو برقرار رکھنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں